Wednesday March 12, 2025

قومی اداروں کے مابین اختیارات کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل، نواز شریف نے من پسند آئینی ترامیم منظور کرانے کیلئے چیئرمین سینیٹ کے بارے میں بڑا فیصلہ کرلیا

اسلام آباد (آن لائن ) قومی اداروں کے مابین جارٍ ی ا ختیارات کی جنگ میں چیئرمین سینیٹ کا عہدہ کلیدی اہمیت اختیار کر گیا ہے، نواز شریف نے پسند آئینی ترامیم پارلیمنٹ سے منظور کرانے کیلئے چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کرنے پر اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کیلئے تن من دھن سے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، آئینی پیکیج کا

مقصد سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں سے جان چھڑانا ہے تاکہ کرپشن کے مقدمات کا من پسند فیصلہکمزور ججوں سے لیا جائے اور عوام میں دوبارہ سرخرو ہونے کا موقع مل سکے یہ فیصلے 31مارچ سے قبل لئے جانے کا امکان ہے۔سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرنا مسلم لیگ (ن) کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ سابق نااہل وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے حال ہی مین بنائے جانے والے قائد نواز شریف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف‘ خواجہ سعد رفیق ‘ پرویز رشید‘ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور امیر مقام کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سینیٹ کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ایک نہایت قریبی ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ چار روز قبل رائے ونڈ میں ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے حصول کیلئے ہر آپشن پر غور کیا گیا۔ نواز شریف نے واضح کیا کہ چیئرمین سینیٹ کی نشست ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔ عدالتوں کی طرف سے شریف خاندان کو حتمی سزا ملنا اب محض چند

ہفتوں کی بات ہے جس کے بعد واحد راستہ آئین میں ترامیم کرکے سب کچھ بحال کرنا ہے اگر چیئرمین سینیٹ کی نشست حاصل نہ ہوسکی تو یہ کام ناممکن ہوجائے گا۔ اس خفیہ میٹنگ میں نواز شریف نے بتایا کہ سینیٹ میں مکمل کامیابی حاصل کرنے کے بعد بلا تاخیر آئین میں آٹھ مخصوص ترامیم کی جائیں گی۔ جس کیلئے ایک مکمل پیکج پیش کیا جائے گا۔ اس پیکج کے تحت ججوں کی عمر کی حد کم کرکے 58 سال مقرر کی جائے گی۔ آئین سے آرٹیکل 62 اور 63 کو یکسر نکال پھینکا جائے گا۔ آرٹیکل 184 کے تحت اعلیٰ عدلیہ بالخصوص چیف جسٹس سپریم کورٹ کے از خود نوٹس (سوموٹو) لنے کے اختیار اور بنیادی حقوق میں ججوں کے اختیارات ختم کردیئے جائیں گے۔ ججوں کے رویئے اور کارکردگی کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کیلئے آرٹیکل 168 اور 169 میں ترامیم کی جائیں گی اور اراکین پارلیمنٹ کی نااہلی کا اختیار صرف الیکشن کمیشن کو دیا جائے گا۔ اس مجوزہ آئینی پیکج کی سب سے اہم

ترمیم یہ ہے کہ سپریم کورٹ اپنے احکامات براہ راست کسی بھی محکمے کو نہیں دے سکے گی بلکہ صرف وزارت قانون کو حکم جاری کر سکے گی۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین یا آئینی ترامیم کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔آئین کی تشریح کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہوگا۔ نواز شریف کے مبینہ آئینی ترمیمی پیکج کی ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں تمام چیف جسٹس صاحبان کے علاوہ تمام سپیکرز اور چیئرمین سینیٹ بھی شامل ہوں گے۔ آئینی معاملات میں کسی ابہام کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل ہی حتمی عدالت تصور کی جائے گی۔ خفیہ میٹنگ کی تفصیلات بتانے والے معتبر ذریعے نے مزید بتایا کہ اس پیکج میں چند عوامی ترامیم بھی شامل کی جارہی ہیں تاکہ لوگوں کا دھیان اس طرف کرکے پورا پیکج منظور کروالیا جائے۔ عوام کو مبینہ طور پر دھوکہ دینے کیلئے مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج میں یہ بات شامل کردی گئی ہے کہ ماتحت عدلیہ

ہر کیس کا ایک ماہ یعنی 30 یوم میں فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی۔ نیب کو بے اثر کرنے کیلئے ایک اچھوتا طریقہ سوچا گیا ہے جس سے بظاہر نیب کے اختیارات مزید بڑھائے جائیں گے اور اسے ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کے قابل بنا دیا جائے گا اور تمام ادرے نیب کے دائرہ کار میں لائے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم میں اس شق کی تفصیلات بتاتے ہوئے نواز شریف مسکرائے اور کہا جب ججوں اور جرنیلوں کے گریبان پر ہاتھ پڑے گا تو پھر سب مل کر نیب کیلئے نئی قانون سازی کریں گے۔ نواز شریف نے اپنے اس منصوبے پر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی کسی حد تک اعتماد میں لیا ہے اور انہیں پیشکش کی ہے کہ وہ رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنائے جانے کے وقت کئے گئے وعدے کے مطابق اس بار مسلم لیگ (ن) سے تعاون کریں اور مل کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو سول حکومتوں کے ماتحت لائیں۔