Thursday September 11, 2025

جھوٹی گواہی کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے، نہ قانون تو پھر عدالت کیسے دے، چیف جسٹس

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نہ اسلام جھوٹ کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی قانون تو پھر عدالت کیسے جھوٹ کی اجازت دے سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کے لئے سچے گواہ بن جاؤ چاہے والدین، بہن بھائیوں یا رشتے داروں کے خلاف گواہی کیوں نہ دینا پڑے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں سرگودھا کے رہائشی نصر اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے محمد ممتاز کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی،

ہائیکورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا۔ عدالت نے قتل کیس میں جھوٹی گواہی دینے پر ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم محمد ممتازکو بری کردیا۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے جھوٹی گواہی کے حوالے سے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا جب سے جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے اور گواہان بھاگنا شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گواہ جھوٹ بولتے ہیں تو قانون کا بھی سامنا کریں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 1951ء میں چیف جسٹس منیرکے جھوٹی گواہی پر فیصلے سے معاملہ خراب ہوا، فیصلے میں تھا کہ گواہ کوجھوٹ بولنے دیں، سچ جھوٹ کا خود پتہ لگالیں گے۔جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا کہ نہ اسلام جھوٹ کی اجازت دیتا ہے اور نہ قانون تو عدالت کیسے جھوٹ کی اجازت دے سکتی ہے، کتنے لوگ جھوٹے گواہوں کی وجہ سے مصیبت برداشت کرتے ہیں۔ جسٹس قاضی محمد امین کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ قرآن پاک میں ہے کہ جھوٹ کو سچ سےمت ملاؤ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ گواہ اللہ کا نام لے کر اور حاضر ناظر جان کو جھوٹ بولتے ہیں، اللہ کے لیے سچے گواہ بن جاؤ چاہے والدین، بہن بھائیوں یا رشتے داروں کے خلاف گواہی کیوں نہ دینا پڑے۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جھوٹی گواہیوں سے متعلق ریمارکس دے چکے ہیں۔ ایک سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ اگر سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے تو انصاف بھی نہ مانگیں جھوٹی شہادت پر ملزمان کے بری ہونے کا الزام عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے، اگر انصاف چاہئیے تو سچ بولیں۔