انقرہ : ترکی کی خبروں سے متعلق ویب سائٹ ’’اًحوال‘‘ نے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترکی کے سابق وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کے حامی سیاست دانوں کا ایک گروپ ملک کے 70 صوبوں میں ایک نئی سیاسی جماعت متعارف کرانے کے واسطے پوری طرح تیار ہے۔ ترکی کے صوبوں کی کٴْل تعداد 81 ہے۔ویب سائٹ کے مطابق دائود اوغلو نے 2014 میں رجب طیب ایردوآن کے ملک کا صدر منتخب ہونے کے وقت وزارت عظمی کا منصب سنبھالا۔
تاہم بعد ازاں وہ دیوار کے ساتھ لگا دیے گئے اور 2016 میں اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے۔ مارچ میں بلدیاتی انتخابات میں حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی سلسلہ وار شکستوں کے بعد داؤد اوغلو پارٹی پر اعلانیہ تنقید کرنے والی شخصیات میں سے بن گئے۔ انہوں نے فیس بک پر ایک طویل منشور بھی پوسٹ کیا۔اس وقت سے ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا کہ داؤد اوغلو ایک نئی سیاسی جماعت لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تاہم اوغلو نے گذشتہ ماہ کہا کہ اس نوعیت کا اقدام آخری آپشن ہو گا۔البتہ اوغلو کے ساتھ کام کرنے والی ایک اہم شخصیت نے بتایا ہے کہ نئی پارٹی نے استنبول اور انقرہ میں پہلے ہی اپنے صدر دفاتر قائم کر لیے ہیں اور 70 صوبوں میں متعارف ہونے کے لیے پارٹی کی تیاریاں مکمل ہیں۔ مذکورہ ذریعے نے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ داؤد اولو آئندہ ماہ عوام کے لیے ایک نیا بیان جاری کریں گے۔
ذریعے نے جو ابھی تک جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی رکنیت کا حامل ہے بتایا کہ حکمراں جماعت نے مقامی انتخابات کے بعد بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے نظام میں جامع ترامیم کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تاہم پارٹی نے مذکورہ ترامیم پر عمل درامد کو مؤخر کر دیا تا کہ سابق وزیراعظم داؤد اور اولو اور ان کے سابق نائب علی بابا جان کی سربراہی میں بننے والی کسی بھی نئی سیاسی جماعت میں شمولیت کی راہ دیکھنے والے ارکان کو روکا جا سکے۔ احوال ویب سائٹ کے مطابق ذریعے کا کہنا ہے کہ داؤد اولو پیشے کے لحاظ سے ایک استاد ہونے کے سبب سیاسی نظام میں بعض تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا صدر اور پارٹی سربراہ دو علاحدہ شخصیات ہوں۔ مزید یہ کہ وہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافے کے خواہش مند ہیں۔ داؤد اولو یہ بھی چاہتے ہیں کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کر دے۔ترکی میں جون 2018 میں ہونے والے قومی انتخابات کے بعد پارلیمانی نظام ایک ایگزیکٹو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔