Tuesday November 26, 2024

تحریک پاکستان کا وہ معروف ترین ہیرو جس نے دوستی کی آڑ میں قائد اعظم ؒ کیخلاف کیا شرمناک کا م کیا تھا ؟

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ تحریک پاکستان کے فعال رہ نما اے کے فضل الحق جنہیں شیر بنگال کہا جاتا تھاوہ قائد اعظم کے دوست نما دشمن بھی تھے اور انہوں نے اس وقت جب وہ بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے قائد اعظم کے جلسہ کو سبوتاژ کرنے کے لئے بدمعاشوں کا انتظام کیا تھا اور یہ کام وہ اپنی نگرانی میں کرانے جارہے تھے لیکن ایک مسلمان افسر نے عین وقت پر انکی سازش کو ناکام بنا دیا

۔سابق بیوروکریٹ شہاب اللہ عزیز نے اردو ڈائجسٹ میں اپنی یادداشتیں رقم کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے وزیر اعلٰی بنگال فضل الحق کی سازش کو ناکام بنادیا تھا ۔انہوں نے لکھا ’’ جب میں آئی سی ایس کی تربیت کے مرحلے سے گزرچکا، تو مجھے 1941ء میں شمالی بنگال میں پٹنہ ضلع کے سراج نج سب ڈویژن اور ساتھ ہی سراج گنج شہر کی میونسپلٹی کا چارج سونپا گیا۔ سراج گنج میں اس وقت دو معروف شخصیتیں عبداللہ الحمود اور دوسری عبدالرشید محمود بستی تھیں۔ ان میں ایک پٹنہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور دوسرے سراج گنج میونسپلٹی کے چیئرمین تھے۔ جناب عبداللہ الحمود کلکتہ میں ڈپٹی ہائی کمشنر بھی رہ چکے تھے۔ دونوں مسلمان راہنما مسلم لیگ کے دلدادہ اور قائداعظم کے پرستار تھے۔ انہوں نے اپنی انتھک جدوجہد سے سراج گنج کو مسلم لیگ کا گہوارہ بنادیا۔ 1941ء میں شمالی بنگال کا تاریخی اجلاس انہی کی کوشش سے منعقد ہوا جس میں قائداعظم اور مس فاطمہ جناح مدعو تھے۔ جلسے کے انعقاد کا جب فیصلہ ہوا تو وہاں کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان میں بے انتہا خوش و خروش پایا گیا اور بڑے زور شور سے لوگوں نے جلسے کی تیاریوں میں حصہ لیا۔ ایک طرف جلسہ عام کی فقید المثال تیاری اپنے عروج پر تھی، دوسری طرف وزیراعلیٰ بنگال فضل الحق جلسہ گاہ کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ تیار کرنے لگے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ معزز مہمانوں کے سراج گنج پہنچنے سے صرف چوبیس گھنٹے قبل وزیراعلیٰ فضل الحق مع بدنام زمانہ شخصیت، شمس الدین احمد سرکاری دوسرے پر آدھمکے۔ وہ اپنے ساتھ ریل کے دو ڈبے بھر کر کلکتہ کے مشہور بدمعاشوں اور دہشتگردوں کو لائے تھے تاکہ منصوبے کے مطابق قائداعظم کا پنڈال نذر آتش کر سکیں۔ یوں دنوں معروف شخصیات کی بدنامی ہوتی اور مسلم لیگ کی مقبولیت کو بھی شدید ٹھیس پہنچتی۔ وزیراعلیٰ فضل الحق کی جانب سے دستخطوں کے ساتھ ضلع کے کلکٹر مسٹر کریک اور ایس پی پولیس مسٹر کک کو حکم نامہ جاری کیا گیا تھا کہ مجوزہ کانفرنس سے ایک روز قبل شہر کے تمام تھانوں سے مسلح سپاہیوں کو مختلف علاقوں میں بھیج

دیا جائے۔ تمام پولیس چوکیاں خالی رہیں اور یہ کہ شہر میں کسی بھی ہنگامے اور فتنے کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ کوئی ایف آئی آر درج ہو۔ مدعا یہ تھا کہ انتظامیہ سیاسی معاملات میں دخل انداز نہ ہوسکے۔ چنانچہ وزیراعلیٰ کے حکم نامہ پر عمل کرتے ہوئے کلکٹر اور ایس پی دونوں روپوش ہوگئے۔میں نے استقبالیہ کمیٹی کی جانب سے ریلوے سٹیشن پر وزیراعلیٰ کا استقبال کیا۔ پھر ایس ڈی او کے بنگلے پر جہاں ان کے لئے دوپہر کے کھانے کا اہتمام تھا، انہیں ساتھ لئے پہنچ گیا۔ اعلیٰ قسم کی جھینگا مچھلی خصوصی طور پر پکائی گئی تھی۔ وزیراعلیٰ نے اس ڈش پر ایسا ہلا بولا اور بے قراری وندیدے پن کا ایسا عملی مظاہرہ کیا کہ تہذیب وتمدن کی قدروں کو بھی شرم محسوس ہونے لگی۔ طعال سے فارغ ہوکر چیف منسٹر نے میرا ہاتھ پکڑا اور بہت بہت شکریہ کہتے ہوئے فرمایا ’’ہم لوگوں نے آپ کو بڑی تکلیف دی، یکا یک دورے کا پروگرام بنانا پڑا تاکہ میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے ضروری صلاح و مشورہ کرسکیں۔ اب آپ چند گھنٹے آرام فرمائیں، انشاء اللہ شام کو چائے پر آپ سے ملاقات ہوگی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ رخصت ہوگئے۔ادھر کارکنان مسلم لیگ سخت پریشان تھے کہ اس آفت سے نجات کیوں کر حاصل ہو؟ جلسہ ہونے میں صرف ایک شب باقی رہ گئی تھی اور کام بھی بہت تھا۔ مجھے پہلے ہی فضل الحق کے دوغلے کردار سے آگہی حاصل تھی۔ پنڈال و جلسہ درہم برہم کرنے کے پروگرام سے بھی انتظامیہ کا اعلیٰ عہدے دار ہونے کے ناتے واقف تھا۔ لہٰذا اپنے منصوبے کے مطابق مسلم نیشنل گارڈزکے پانچ سو کارکنوں کو تیار کرکے یہ ہدایت دی کہ باہر سے لائے غنڈون کا سخت ترین محاصرہ کرلیں اور ان کی نقل و حرکت پر حاوی رہیں تاکہ رات میں کوئی بھی نہ تو شہر میں نکلے اور نہ پنڈال کی جانب بڑھ سکے۔اب غنڈوں نے اپنے آپ کو سخت مشکل میں پایا۔ پولیس کو بھی غائب دیکھا تو پسپائی اختیار کرنے کے انداز میں بدمعاشوں مسلم لیگ گارڈ کمانڈر کو تجویز پیش کی کہ وہ لوگ کلکتہ واپس جانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ تجویز منظور کرتے ہوئے انہیں سٹیشن پہنچادیا گیا۔ ان کی روانگی تک گارڈز کا دستہ وہاں متعین رہا۔میری اس خفیہ کارروائی کی بھنک تک کسی سرکاری افسر، پولیس اہلکار اور مخالف سیاسی کارکنوں تک پہنچنا محال تھا۔ سہ پہر چار بجے چائے پارٹی کے لئے میونسپل آفس کے میدان میں وزیراعلیٰ اور مسٹر شمس الدین پہنچے تو کلکٹر کریک اور ایس پی مسٹر کک بھی وہاں پہنچ گئے۔ میں دیکھتا رہا کہ مسٹر شمس الدین سے یہ معلوم کرنے کو کیسے بے قرار تھے کہ جلسہ روکنے کے سلسلے میں انتظامیہ نے کیا انتظامات کئے ہیں۔ مسٹر شمس الدین نہایت معتبرانہ انداز میں ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کریک، کک، کریک ،کک کی آوازیں بلند کررہے تھے، جیسے انہیں تلاش کررہے ہوں۔ جوں ہی یہ دونوں افسران کے قریب پہنچے تو دریافت کیا ’’آپ لوگوں نے کیا انتظام کیا؟‘‘ دونوں نے جواباً صرف یہ عرض کیا ’’جیسا وزیراعلیٰ نے حکم دیا تھا۔‘‘ شافی جواب پاکر مسکرائے اور فاتحانہ انداز سے چیف منسٹر

کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ ریلوے سٹیشن پر مسلم لیگ کے گارڈز نے وزیراعلیٰ کو سلامی دی جس سے مسٹر شمس الدین بھی کافی محظوظ نظر آئے۔اسی اثناء میں شمس الدین کی نظر ریل کے ان دو ڈبوں پر پڑی جن کی کھڑکیوں سے کلکتہ سے لائے گئے غنڈے، گارڈ کے معائنے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اب یہ حضرت سکتے میں آئے اور فوراً ہی اپنے ڈبے میں گھس گئے۔ یوں چیف منسٹر جس طرح اپنے غنڈوں کو لے کر آئے تھے، اسی طرح نامراد واپس لے گئے۔ یہ تھا وہ شخص جو ہر لمحے ہندوستانی مسلمان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے درپے رہتا۔ اگر بروقت یہ تمام اطلاعات مجھے نہ ملتیں تو یقیناًبڑا ہنگامہ جنم لیتا۔ اللہ نے چیف منسٹر کا سارا منصوبہ خاک میں ملادیا اور مسلم لیگ کا یہ تاریخی اجلاس اس دوست نما دشمن کے شر سے محفوظ رہا۔‘‘

FOLLOW US