مائی برکتے کی داستان قصبہ چونڈہ کے باسی یاد رکھے ہوئے ہیں۔مائی برکتے بالکل اکیلی تھی۔ اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ 1965کی جنگ شروع ہوئی تو گاؤں کے تمام خاندان محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے۔ مائی نے جانے سے انکار کر دیا۔ مائی نے ایک تندور لگایا ہوا تھا جہاں وہ روٹیاں لگا کر اپنی گزر بسر کرتی تھی۔ جنگ کے دوران مائی سارا وقت روٹیاں لگاتی رہتی اور اپنے آپ سے باتیں کرتی رہتی۔
ابھی میرے فوجی جوان آئیں گے، بھوکے ہوں گے، یہاں کون ہے ان کے لئے کھانا پکانے والا، میں ہوں نا ان کی ماں ان کے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا بناؤں گی۔ میرے بیٹوں کو بھوک لگی ہو گی۔ روٹیاں لگا کر وہ بڑی سی چنگیر میں رکھتی اور سامنے سڑک پر کھڑی ہو جاتی جہاں سے فوجی جوان گزرتے تھے۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے ان کو رکنے کا اشارہ کرتی اور کھانے کی دعوت دیتی ۔ فوجی جوان مائی کا دل رکھنے کے لئے ایک ایک روٹی اٹھا لیتے اور تبرک کے طور پر مائی کے سامنے نوالہ توڑ کر منہ میں ڈال لیتے اور آنکھوں میں آنسو لئے دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑنے کے لئے محاذ جنگ کی طرف روانہ ہو جاتے کون جانے کتنی ماؤں نے اپنے بیٹوں کے لئے اﷲ سے کتنی دعائیں مانگی ہوں گی۔ اسی لئے تو دشمن اتنی طاقت رکھنے کے باوجود ریلوے لائن عبور نہ کر سکا۔