Tuesday November 26, 2024

”میرا بچہ کہتا ہے بنکر میں میرا دم گھٹتا ہے“

لاہور: مظفرآباد کی رہائشی نجمہ بی بی کا کہنا ہے کہ آزادکشمیر میں خوف وہراس کی فضاء ہے، ایل اوسی پر لوگ زیرزمین بنکر میں رہتے ہیں، ایک بنکر تین چار خاندان رہتے ہیں، میرا بچہ کہتا بنکر میں میرا دم گھٹتا ہے،لوگ رات بھر مورچوں میں بیٹھے رہتے ہیں،سوتے بھی نہیں،تین چار گھنٹوں کیلئے باہر نکلتے، کام نمٹا کرپھر بنکر میں چلے جاتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے(بی بی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق نجمہ بی بی کا خاندان ایک ہفتے سے اپنے بچوں اور دیگر اہلخانہ کے ہمراہ مظفر آباد میں ایک کرائے کے گھر میں مقیم ہیں۔ جوراہ نامی ان کے گاؤں میں گذشتہ ہفتے شدید فائرنگ کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ فائرنگ تو دو تین دن سے چل رہی تھی اس لیے زیادہ تر وقت زمین کے نیچے بنے بنکرز میں گزرتا تھا۔

میں پانی بھرنے جا رہی تھی کہ ایک دم پورا گاؤں گولیوں کی بوچھاڑ سے لرز اٹھا۔ میں وہیں بیٹھ گئی۔ میں رو رہی تھی اور مجھے اس لمحے یقین ہو گیا تھا کہ مجھے اب گولی لگے گی اور میں مر جاؤں گی۔ چند لمحوں کے لیے گولیوں کا شور ختم ہوا تو میں بھاگتی ہوئی گھر پہنچی۔ شیلنگ سے ان کے گھر کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت ان کے اہلخانہ نے فیصلہ کیا کہ انھیں مظفر آباد جانا چاہیے۔ کچھ سامان ہم نے اٹھایا، کچھ نہیں اٹھا سکے، بچوں کے آدھے کپڑے اٹھائے آدھے نہیں لا سکی، کھانا پکا ہوا کھلا چھوڑ کر نکلے کچھ سمیٹ نہیں سکے، کچھ دروازے لاک کیے کچھ کھلے چھوڑ کر آ گئے۔ ان سے پوچھا کہ اب گاؤں میں کیا حالات ہیں تو انھوں نے بتایا کہ حالات تو ویسے ہی ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی وقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان یہاں کشمیر میں حالات اتنے خراب ہو سکتے ہیں کہ کسی کو پھر گھر سے نکلنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔

ہم دو دن یہاں گزارنے کے بعد واپس گھر پہنچے تو پتا چلا کہ انڈیا نے کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کر دیا ہے۔ ہم نے سری نگر میں اپنے رشتہ داروں سے رابطے کرنے کی کوشش کی مگر کہیں سے کوئی خبر نہیں تھی۔ ہم ایک گھنٹے بعد ہی دوبارہ گاؤں سے نکل آئے۔ نجمہ نے بتایا کہ گاؤں میں خوف و ہراس ہے۔ میرا بچہ کہتا ہے کہ بنکر میں اس کا دم گھٹتا ہے۔ ایک ایک بنکر میں تین چار خاندان رہتے ہیں، رات بھر مورچوں میں بیٹھے رہتے ہیں، ایسا نہیں کہ سو جاتے ہیں، بس بیٹھے رہتے ہیں۔ تین چار گھنٹوں کے لیے باہر نکلتے ہیں، کام نمٹا کر، کھانا پکا کر پھر بنکر میں چلے جاتے ہیں۔لائن آف کنٹرول پر شیلنگ زیادہ ہو جائے تو ان دیہاتوں میں موجود خاندان جان بچانے کے لیے مظفر آباد، میرپور سمیت دیگر محفوظ علاقوں میں آتے ہیں۔ یہاں عارضی طور پر منتقل ہونے والے ان شہریوں کے لیے کیمپس بھی بنائے جاتے ہیں۔ محفوظ سمجھے جانے والے ان علاقوں میں آج کل زندگی تو معمول کے مطابق گزرتی نظر آتی ہے۔

مگر یہاں خوف اور بے یقینی بھی غالب ہے۔ ایک تاجر نے بتایا کہ ایل او سی پر فائرنگ نئی بات ہے نہ ہی شہریوں کا گھر بار چھوڑ کر کسی محفوظ کیمپ میں منتقل ہونا۔ مگر اس ساری کشمکش کے بیچ نجمہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان رہتی ہیں۔ ہم جب گھروں سے نکلتے ہیں تو واپسی کا پتا نہیں ہوتا، بچوں کے سکول گاؤں میں ہیں، ان کی تعلیم وہیں رک جاتی ہے اور بچپن سے بڑھاپے تک ہم گولیوں اور نقل مکانی کے بیچ ہی زندگی گزارتے ہیں۔

FOLLOW US