قرآن کی سوره یوسف میں ایک پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نقل هوئے ہیں : یعنی میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوه صرف اللہ سے کرتا هوں -(12:86) قرآن کی اس آیت سے معلوم هوتا ہے کہ ایک مومن کے لیے جائز نہیں کہ وه کسی انسان یا انسانوںکے کسی گروه کے خلاف شکایت میں مبتلا هو جائے – اس واضح قرآنی تعلیم کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ
تمام مسلمان شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں – ہر ایک نے کوئی دشمن یا ظالم دریافت کر رکها ہے جس کے خلاف وه تقریر یا تحریر کی صورت میں شکایت کی زبان استعمال کرتا رہتا ہے – یہ ایک عمومی گمراہی ہے جو مشرق سے مغرب تک تمام مسلمانوں میں کم و بیش چهائی هوئی ہے – اس کا سبب کیا ہے – یہ ہے کہ لوگوں کہ لوگوں –یہ ہے کہ لوگوں نے شکایت کو حق و انصاف کے مسئلے سے جوڑ رکها ہے – شعوری یا غیر شعوری طور پر وه یہ سمجهتے ہیں کہ همارے خلاف ظلم اور دشمنی کا معاملہ کیا جا رہا ہے – ایسی حالت میں ازروئے انصاف هم کو حق ہے کہ هم شکایت کی زبان بولیں – یہ ایک جائز کرده برائی (justified evil) کا معاملہ ہے – اسی کی بابت کہا گیا ہے کہ شکایت کا تعلق کسی دوسرے سے نہیں ، بلکہ انسان کی اپنی ذات سے ہے – شکایت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کے اندر منفی سوچ آ جاتی ہے اور منفی سوچ بلاشبہہ تمام نیکیوں کی قاتل ہے – اسی بنا پر اسلام میں دوسروں کے لیے دعوت ہے ، دوسرے کے لیے شکایت نہیں –موجوده زمانے کے مسلمانوں کا کیس ایک لفظ میں وکٹم ہڈ (victimhood) کا کیس ہے – موجوده زمانے کے
مسلمان عام طور پر زیادتی کے احساس (feeling of victimhood) میں جی رہے ہیں – موجوده زمانے کے مسلمانوں کی اصلاح کا صحیح آغاز یہ ہے کہ ان کے منفی احساس کو بدل کر ان کے اندر صحیح احساس پیدا کیا جائے – یہ صرف اس وقت هو سکتا ہے جب کہ مسلمانوں کو ذہنی اعتبار سے اس کے لیے تیار کیا جائے کہ تم جن شکایتوں کو لے کر احساس محرومی میں مبتلا هو ، وه زندگی کے حقائق ہیں ، وه چیلنج کے واقعات ہیں ، نہ کہ ظلم کے واقعات –