اسلام آباد(نیوزڈیسک) آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے6ارب ڈالر کے پیکج کی منظوری کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے آئندہ تین سال کے دوران پاکستان کے لیے مجموعی طور پر 38 ارب ڈالر قرض ملنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہو گئی ہے. پاکستان کو اگلے تین برسوں میں ملنے والے 38 ارب ڈالر کے قرض کے بارے مشیر خزانہ
حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 8.7 ارب ڈالر پراجیکٹ لون ہو گا 4.2 ارب ڈالر بجٹ سپورٹ لون 14 ارب ڈالر جاری قرضہ جات جبکہ تقریباً 8ارب ڈالر کمرشل لون کی مد میں ملیں گے. انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی کامیابی ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کے تمام ممبران نے پاکستان کو قرض دینے کی سپورٹ کی اور کسی ایک ممبر نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی. آئی ایم ایف کا فیصلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بین الاقوامی قوتیں اور بڑے ادارے اب پاکستان کی معاشی کارکردگی سے مطمئن ہوں گے. انھوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کو 3.4 بلین ڈالر اضافی قرض دے گا جس میں سے 2.1 بلین ڈالر اس سال ملیں گے جبکہ ورلڈ بینک کے ساتھ بھی اضافی رقم دینے کی بات ہو رہی ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اس کی حکومت دنیا کو یہ پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہم اپنے اخراجات کو کنٹرول میں کریں گے اور مشکل معاشی فیصلے کریں گے اور ٹیکس اکٹھا کریں گے. انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض پر شرح سود تین فیصد سے بھی کم ہو گی‘ قرض کے حصول سے قبل آئی ایم ایف اور پاکستان کے جو بھی مذاکرات ہوئے اس میں چار بڑے شعبوں کے حوالے سے
گفت و شنید ہوئی. جن میں پاکستان کو اپنی ڈالر کمانے کی اہلیت کو بڑھانا ہے جو صرف اسی وقت ممکن ہے جب برآمدات کو بڑھایا جائے اور درآمدات کو کم کیا جائے. دوسرا حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے اور یہی وجہ تھی کہ اس سال بجٹ میں سویلین بجٹ کو 50 ارب روپے کم کیا گیا جبکہ دفاعی بجٹ کو منجمد کیا گیا دفاعی بجٹ کو منجمد کرنا درحقیقت اس میں کمی کرنے کے مترادف ہے. تیسرا ادارہ جاتی مضبوطی اور اس کے لیے حکومتی اداروں بلخصوص سٹیٹ بینک کو زیادہ آزادی دی ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے احسن طریقے سے کر سکیں‘چوتھا ان اداروں کی نجکاری جو ماضی میں کام نہیں کر سکے اور پاکستانی معیشت پر بوجھ کا سبب بنے جیسا کہ بجلی فراہم کرنے والے ادارے‘ہمیں کہا گیا ہے کہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی ایک لسٹ بنائی جائے جس میں حکومت طے کرے گی کہ کون سے ادارے بالکل ناقص ہیں اور کون سے حکومت یا پرائیویٹ سیکٹر چلا سکتے ہیں یہ لسٹ ستمبر 2020 تک بنائی جائے گی.