قریش میں سترہ ایسے مجرم بھی تھے، جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شفقت سے محروم کر کے واجب القتل قرار دیتے ہوئے فرما دیا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غلاف کعبہ کے نیچے چھپا ہوا ملے تب بھی اسے معاف نہ کیا جائے.جن لوگوں کے متعلق فرمان قتل نافذ ہوا ان میں سے بعض لوگ ادھر ادھر روپوش ہو گئے، بعض بھاگ کر مکہ سے دور چلے گئے،
لیکن ان مجرموں کے ساتھ یہ برتاؤ کسی کینہ یا برہمی کیوجہ سے نہ تھا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ذمائم (برے) اخلاق سے مبرا تھے، بلکہ ان بدنصیبوں نے خود اپنے اعمال کی وجہ سے یہ روز بد دیکھا. ان مجرموں میں مندرجہ ذیل اشخاص تھے:1. عبداللہ ابن ابی سرح تھے جو مسلمان ہو جانے کے بعد کاتب وحی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کی طبیعت رنگ لائے بغیر نہ رہی. ترک اسلام کر کے قریش کے ہاں چلے آئے اور یہاں آ کر یہ ڈینگیں مارنے لگے کہ میں قرآن میں کمی بیشی کرتا ہوں.2. عبداللہ ابن خطل یہ بھی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گیا اور مرتد ہونے کے بعد اپنے بے گناہ غلام کو قتل کر دیا. اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی دو کنیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کے قصائد سوز میں سننے سنانے کا مشغلہ بنا لیا.3, 4. مذکورۃ الصدر دونوں کنچنیوں کے لئے.5. عکرمہ بن ابوجہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے حسد و دشمنی میں حد سے گزرے ہوئے. فتح مکہ کے زمانے میں بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کے دستے پر حملہ کر دیا.6. صفوان بن امیہ.7. حویرث بن نقیذ. جناب زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقعہ پر سیدہ کے درپے آزار ہوا. بی بی کی سواری کے جانور کو اس زور سے کونچا دیا کہ سواری بے تحاشا بھاگ اٹھی. سیدہ زمین پر گر پڑیں اور اسقاط ہو گیا.8. مقیس بن حبابہ. مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو کر مشرکوں کا ناصر و معین بن گیا.9. ھبار بن اسود.10. ہند بنتعتبہ (زوجہ ابو سفیان) سید الشہداء (عم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی.ان میں چار اشخاص کیفر کردار کو پہنچ گئے. ابن اخطل، اس کی کنیز قریبہ، مقیس، حویرث باقیوں کی سرگزشت یہ ہے.1. عبداللہ بن سرح: (نمبر ایک) حضرت عثمان کے سوتیلے رضاعی بھائی تھے. ممدوح اسے ہمراہ لائے. جاں بخشی کی سفارش پیش کی. رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر سکوت کے بعد معاف فرما دیا.2.عکرمہ بن ابوجہل (نمبر5) کی اہلیہ سیدہ ام حکیم بنت الحارث اسلام لے آئی تھیں. عکرمہ فرمان قتل سن کر یمن کی طرف
بھاگ گئے. ام حکیم نے اپنے شوہر کی جاں بخشی کی التجا کی اور قبول عرض کے بعد بی بی خود یمن کی طرف گئیں.3. صفوان بن امیہ (نمبر6) بھی عکرمہ کے ہمراہ تھے. دونوں ایک کشتی میں سوار ہو کر یمن کی طرف جانے کے لئے پتوار کھول رہے تھے کہ بی بی ام حکیم جا پہنچیں اور جاں بخشی کے مژدہ سنا کر دونوں کو مکہ واپس لے آئیں. 4. سیدہ ہند (نمبر10) زوجہ ابوسفیان. حوالہ: حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: صلحِ حدیبیہ سے وفات ابراہیمؓ تک مصنف: محمد حسین ہیکل