ارون الرشید کو ایک لونڈی کی ضرورت تھی، اس نے اعلان کیا کہ مجھے ایک لونڈی درکار ہے،اس کا اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں سے ایک کا رنگ کالا تھا ایک کا گورا.ھارون الرشید نے کہا مجھے ایک لونڈی چاہیے دو نہیں. گوری بولی تو پھر مجھے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچھا ہوتا ہے…کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچھا ہوتا ہے آپ مجھے خریدیے.ہارون الرشید نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچھا تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا
اچھا ہے یا کالا؟جو جیت جائے گی میں اسے خرید لونگا..دونوں نے کہا بہت اچھا! چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوااور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے. یہ اشعار عربی زبان میں تھیں مگر مصنف نے ان کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے، لیجئے آپ بھی پڑیئے اور غور کیجئے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بھی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تھیںگوری بولی:”موتی سفید ہے اور قیمت ہے اس کی لاکھوں،اور کوئلہ ہے کالا پیسوں میں ڈھیر پالے”(بادشاہ سلامت ! موتی سفید ہوتا ہے، اور کس قدر قیمتی ہوتا ہے، اور کوئلہ جو کہ کالا ہوتا ہے کس قدر سستا ہوتا ہے کہ چند پیسوں میں ڈھیر مل جاتا ہے)اور سنیے؛”اللہ کے نیک بندوں کا منہ سفید ہوگا،اور دوزخی جو ہونگے،منہ ان کے ہونگے کالے”بادشاہ سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے گا کہ رنگ گورا اچھا ہے یا نہیں؟بادشاہ ”گوری” کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوااور پھر کالی سے مخا طب ہوکر کہنے لگا. سنا تم نے؟؟ اب بتاو کیاکہتی ہو؟؟کالی بولی حضور!”ہیمشک نافہ کالی قیمت میں بیش عالی،ہے روئی سفید اور پیسوں میں ڈھیر پالی”کستوری کالی ہوتی ہے، مگر بڑی گراں قدر اور بیش قیمت مگر روئی جع کہ سفید ہوتی ہے، بڑی سستی مل جاتی ہے اور چند پیسوں میں ڈھیر مل جاتی ہے)اور سنیے؛”آنکھوں کی پتلی کالی ہے نور کا وہ چشمہ،اور آنکھ کی سفیدی ہے نور سے وہ خالی”بادشاہ سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ رنگ کالا اچھا ہے یا نہیں؟؟ کالی کے یہ اشعار سن کر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا اور پھر گوری کی طرف دیکھا تو فورا بولی:”کاغذ سفید ہیں سب قرآن پاک والے”کالی نے جھٹ جواب دیا:” اور ان پہ جو لکھے ہیں قرآن کے
حرف کالے”گوری نے جھٹ کہا کہ:”میلاد کا جو دن ہے روشن وہ بالیقیں ہے”کالی نے جھٹ جواب دیا کہ:”معراج کی جو شب کالی ہے یا نہیں ہے؟؟”گوری بولی کہ:”انصاف کیجیے گا، کچھ سوچیے گا پیارے!سورج سفید روشن، تارے سفید سارے”کالی نے جواب دیا کہ:”ہاں سوچیے گا آقا! ہیں آپ عقل والے،کالا غلاف کعبہ، حضرت بلال کالے”گوری کہنے لگی کہ”رخ مصطفے ہے روشن دانتوں میں ہے اجالا”کالی نے جواب دیا”اور زلف ان کی کالی کملی کا رنگ کالا”بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجھے لونڈی تو ایک درکار تھی مگر میں تم دونوں ہی کو خرید لیتا ہوں