جب آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تو جنگل کے جانور آپکی زیارت کرنے کو آئے۔ آپ علیہ اسلام ہر جنس کے جانوروں کے لیے دعا فرماتے یہاں تک کہ ہرنیاں بھی آئیں، آپ نے انکے لئے دعا فرمائی اور محبت سے انکی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو ان میں کستوری پیدا ہوگئی جس کی خوشبو سے تمام جنگل مہک اٹھا۔ ہرنیوں کی دوسری جماعت نے ان سے خوشبو کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا
جب ہم آدم علیہ السلام کی خدمت میں زیارت کرنے کیلئے حاضر ہوئیں تو دعا کے ساتھ ساتھ آپ نے ہماری پیٹھ پر بھی ہاتھ پھیرا جس کی برکت سے ہم اس خصوصیت سے ممتاز ہوئیں۔ یہ سنتے ہی ہرنیوں کی دوسری ذات بھی حاضر ہوئی آپ نے انکے لیے بھی دعا فرمائی اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرا مگر خوشبو نمودار نہ ہوئی ، ہرنیاں اپنی ہم نسلوں سے کہنے لگی کہ ہم نے بھی آدم علیہ السلام سے یہی عمل کرایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اسکی کیا وجہ ہے؟ پہلی جماعت کی ہرنیوں نے کہا کہ ہم نے آدم علیہ السلام کی زیارت اللہ کی رضا کی خاطر کی تھی ہم اپنی خالص نیت کے سبب سرفراز ہوئے اور تم خلوص نیت کے فقدان کے شکار رہے تو ثابت ہوا کہ ہر کام انجام دینے کے لیے نیت کا اچھا ہونے ضروری ہے۔ اے سورج تو گواہ رہنا کہ ہمیشہ ’’علی‘‘ نے تجھے ابھرتے دیکھا ہے مگر تو نے ’’علی‘‘ کو کبھی سوتے نہیں پایا۔ (حضرت علیؓ) اگر دوستی تمہاری کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے طاقتور انسان ہو۔ (حضرت علیؓ) لوگوں کو دعا کیلئے کہنے سے زیادہ بہت ہے کہ ایسے عمل کرو کہ لوگوں کے دلوں سے آپ کیلئے دعا نکلے۔ (حضرت علیؓ) نماز کی فکر اپنے اوپر فرض کر لو خداکی قسم! دنیا کی فکر سے آزاد ہو جاؤ گے۔ (حضرت علیؓ) موت کے مخبر کے طور پر بڑھاپا کافی ہے۔ (حضرت علیؓ)