لاہور (نیوز ڈیسک ) تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مشیر نامور پاکستانی صحافی اور کالم نگار چوہدری محمد اکرم کو انکے عہدے سے فارغ کر دیا گیا ہے ۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بھولے بھالے وزیراعلیٰ پنجاب کے کاموں اور انتظامی معاملات میں مداخلت کرتے تھے ،لیکن جہاں تک حقائق کا تعلق ہے آپ کو بتاتے چلیں کہ محمد اکرم چوہدری کا تعلق نوائے وقت گروپ سے تھا وہ باقاعدگی کے ساتھ اس روزنامہ اخبار کے لیے کالم لکھتے تھے ، انکے
سابقہ تما م کالم چیخ چیخ کر عمران حکومت کی پالیسیوں اور گورننس کو عوام دوست قرار دے رہے تھے ، لیکن اگر انکے پچھلے یعنی تازہ ترین کالمز کی بات کی جائے تو ان میں وہ عوام کے مسائل کا رونا روتے نظر آتے ہیں ، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کو عوام کے مسائل کے لیے سچی بات دبنگ طریقے سے کرنے کی پاداش میں عہدے سے فارغ کیا گیا ہے اور اب انکی جگہ پر کسی ایسی شخصیت کو لگایا جائے گا جو وہی کرے جیسا تبدیلی والے ان سے کہیں ، یعنی صرف اور صرف تبدیلی کا شور مچاتے جائیں ، سابق مشیر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری محمد اکرم کا اصل قصور کیا ہے ،تبدیلی سرکار کا طرز عمل دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے حکومت کو واقعتاً ایک کرکٹ ٹیم سمجھ لیا ہے اور سچی اور کھری بات کرنے والا انکے نزدیک قابل برداشت نہیں ۔ محمد اکرم چوہدری کے دو کالموں سے لیے گئے چند اقتباسات پڑھ کر آپ اصل کہانی بخوبی جان جائیں گے ۔۔۔ محمد اکرم چوہدری کے آج مورخہ 14 مئی کو چھپنے والے کالم سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں ۔۔۔۔۔۔ میرے مشیر خزانہ کو کیا معلوم کہ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں، میرے مشیر خزانہ کیا جانیں کہ عام آدمی اپنے گھر کا خرچہ کیسے چلاتا ہے، میرے مشیر خزانہ کیا جانیں کہ کم آمدن والے گھرانے کے سربراہ کو ہر ماہ
بجلی، گیس اور پانی کے بھاری بلوں نے ذہنی مریض بنا دیا ہے، میرے مشیر خزانہ کیا جانیں کہ جس نے ہر ماہ گھر کا کرایہ دینا ہے، بچوں کی فیس جمع کروانی ہے ٹیکسوں کے بوجھ میں دبا کر اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر یہ ملک کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے۔ جب حکومت عام آدمی کو کچھ دے نہیں سکتی تو اتنے بھاری ٹیکسوں کی مد میں پیسے وصول کیوں کرتی ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو عوام کے پاس ٹیکس دینے کے لیے بھی پیسہ نہیں بچے گا۔ ہم کیوں عوام کو اس بند گلی میں دھکیل رہے ہیں جہاں انکے پاس سوائے احتجاج کے کوئی راستہ نہیں بچے گا، ہم کیوں ان سادہ لوح اور معصوم لوگوں کو اس راستے پر ڈال رہے جہاں وہ طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے قانون توڑنے پر مجبور ہو جائیں، ہم کیوں مجبور عوام کو اس جنگ میں دھکیل رہے ہیں جب وہ خود لٹیروں سے اپنا پیسہ واپس لینے کے لیے میدان میں نکل آئیں۔۔۔۔۔ اسی طرح 5 مئی کو نوائے وقت میں شائع ہونیوالے ایک کالم میں محمد اکرم چوہدری لکھتے ہیں ۔۔۔۔ میروں کے پاس وقت ہے کہ وہ خواب دیکھیں، انکا پیچھا کریں، اہداف حاصل کریں، نئی فیکٹریاں لگائیں، لاکھوں کروڑوں کمائیں، دنیا گھومیں، مزے کریں، زندگی سے لطف اندوز ہوں، اچھا کھائیں، اچھا پہنیں، نئی گاڑیاں خریدیں، پرتعیش زندگی گذاریں۔ لیکن کیا ملک کے غریب کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ خواب دیکھے، اچھی زندگی کا سوچے، اچھا کھانا کھائے اہلخانہ کے ساتھ وقت گذارے بچوں کی شرارتوں سے محظوظ ہو، بدقسمتی سے آج وسائل سے محروم طبقے کے پاس تو سونے کا ہی وقت نہیں ہے خواب کہاں دیکھے گا۔ کہاں مستقبل کی تعمیر بارے منصوبہ بنائے گا، کہاں ملک کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کرے گا۔ کیا یہ عمران خان کا پاکستان ہے، یقینا نہیں، عمران خان کا پاکستان ایک پاکستان ہے جہاں طبقاتی تقسیم نہیں ہو گی۔ عمران خان کا پاکستان وہ پاکستان ہے جہاں ہر شہری کے پاس نیند پوری کرنے، خواب دیکھنے اور ان خوابوں کے حصول کے لیے کام کرنے کا وقت ہو گا۔ اس پاکستان کی تعمیر کے لیے تمام اقدامات اٹھانا بھی وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے۔ ایک اور نئے پاکستان کے لیے عمران خان کو ملک میں وسائل سے محروم طبقے کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، اس طبقے کی محرومی کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔