بیجنگ ( ویب ڈیسک ) انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم , ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان اور چین پر زور دیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر شادی کے لیے پاکستانی خواتین کو چین ʼاسمگل کرنے کے واقعات کا نوٹس لیں۔ بعض خواتین کو ʼجنسی غلاموں ʼ کی طرح رکھے جانے کی اطلاعات بھی ہیںایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ حال ہی میں لاہور کی رہائشی پانچ خواتین کو شادی کی غرض سے چین بھیجنے کا معاملہ سامنے لایا ہے۔چین جانے کی منتظر ان پانچ
لڑکیوں میں دو کی عمریں محض 13 برس تھیں۔ رپورٹ کے مطابق ان خواتین کو چار لاکھ پاکستانی روپے فی کس کے عوض چین بھجوانا طے پایا تھا۔ جب کہ ہر ماہ 40 ہزار اور خاندان کے ایک مرد کو چین کا ویزہ دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری کا جن جب تک بوتل سے باہر ہے انسانوں کی سمگلنگ اور غیر قانونی نقل مکانی روکنا مشکل ہے۔ کسی معاشرے میں جہالت، غربت، معاشی نا ہمواری اور بے روزگاری جیسی برائیاں جرائم کی پرورش کرتی ہیں۔معاشی لحاظ سے پاکستان میں اگرچہ گزشتہ کچھ سالوں کی نسبت بہتری آئی ہے صورتحال اب بھی حوصلہ افزا نہیں۔ ملک کے تعلیمی نظام سے لے کر حکومت کے بنیادی ڈھانچے میں شامل تمام ادارے بے روزگاری پیدا کرنے کے کارخانے ہیں۔ ایک غیر تعلیم یافتہ فرد کا تو ذکر ہی کجا ہمارا اعلے تعلیمی نظام بھی افراد کو اس قابل نہیں بناتا کہ وہ معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔افرادی قوت کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔ 2016 میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی کل افرادی قوت تقریبا 6 کروڑ ہے۔ مگر غیر مؤثر حکمت عملی کے باعث نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ تجربات اور بے مصرف سرگرمیوں میں ضائع کر دیتا ہے۔ 21 سے 24 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 9 فیصد بتائی گئی۔