Wednesday November 27, 2024

“سنو! اپنا ہاتھ کنٹرول کرو، ورنہ “

“بات اسلام آباد (سیف اعوان )سنو، اپنا ہاتھ کنٹرول کرو ۔ ورنہ یہاں ایسا تماشہ کھڑا کر دوں گی کہ تم دوبارہ ایسی حرکت کرنے کے تو کیا کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہوگے” کپڑوں کی دوکان پر سینکڑوں کی بھیڑ میں اس چیختی ہوئی آواز نے ہر طرف خاموشی طاری کردی ۔اور لوگ اس جانب متوجہ ہو گئے جہاں سے یہ آوازآئی تھی۔ عید کا موقع تھا۔ دوکان پر بے پناہ رش تھا۔ میں اور شاہ جی دونوں دوستوں کو بھی عید پر کرتا شلوار خریدنے کی سوجھی تو شہر کی سب سے

مشہور مارکیٹ کا رخ کیا۔ ابھی سامنے لگے مختلف رنگوں اور ڈیزائن کے کرتے دیکھ ہی رہے تھے کہ کسی جواں سالہ خاتون کی آواز نے ہمیں بھی چونکا دیا۔ ایسے موقعوں پر چسکے لگانے والوں کی دلچسپی کا سامان از خود ہی پیدا ہوجاتا ہے۔ تماش بین اپنے سارے ضروری کام چھوڑ کر بغیر ٹکٹ کے ایسے مناظر مفت دیکھنے میں جت جاتے ہیں۔ ذرا کچھ آگے بڑھ کر دیکھا تو لگ بھگ 25سال کی عمر کی ایک لڑکی کائونٹرکے نزدیک کھڑی ایک شخص کو قہر آلود نظروں سے گھوررہی تھی۔اس شخص کی عمر کم از کم چالیس سال کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ قدرے موٹی جسامت اور گہری رنگت کا مالک آدمی تھا اور اس کا نکلا ہوا پیٹ اس کی بڑھتی ہوئی عمر کا پتہ دے رہا تھا۔لڑکی نے اپنی پشت کائونٹر کی طرف کی ہوئی تھی اور اب وہ اس شخص کو سامنے کھڑےہو کر گھور رہی تھی۔ہمیں فوری طور پر اندازہ ہو گیا کہ کچھ دیر قبل یہ شخص لڑکی کے پیچھے کہیں قریب ہی کھڑا ہوا تھا اور رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے دست درازی کررہا تھا۔ جس پر لڑکی نے اچانک پلٹ کر ایک تیز اور سخت جملے سے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ وہ شخص پہلےتو مصنوعی انداز میں حیران ہوا اور جوابی حملے کی کوشش کی۔”میڈم! کیا ہوا ہے؟ میں نے کیا کیا ہے۔ آپ ہوش میں تو ہیں؟” ۔ تاہم وہ لڑکی شاید اس بناوٹی حیرت اورغصے کو فوراً بھانپ گئی اور جھٹ سے بولی” میں ہوش میں ہی ہوں لیکن لگتا ہے تمھارے ہوش ٹھکانے لانے والے ہوگئے ہیں۔ بے غیرت انسان ! گھر میں مائیں بہنیں نہیں ہیں؟ ان کے ساتھ جا کر کرو یہ سب کچھ۔ یہ عمر ہے تمھاری ایسی حرکتیں کرنے کی؟”۔اب شاید لڑکی کو لگ رہا تھا کہ دیکھنے والے سارے لوگ اس کے محافظ اور مددگار بن گئے ہیں۔اسلئے اس کے لہجے میں خود اعتمادی اور روانی آچکی تھی۔اس پر وہ آدمی جز بز ہو گیا۔ تاہم اب بھی وہ ہاتھ کے اشاروں سے اپنی معصومیت اور لاعلمی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ تاہم گناہ سے آلودہ ان ہاتھوں کا ساتھ اسکی آنکھیں اور چہرے کی گھبراہٹ دینے کوتیار نہیں تھی۔ وہاں پر کئی ایسے لوگ موجود تھے جن کے ساتھ خواتین اور جوان لڑکیاں بھی تھیں۔ ظاہر ہے یہ ایک ناپسندیدہ اور شرمناک واقعہ تھا جوہر ایک پر اپنی بے ہودگی اور بداخلاقی کے راز کھول رہا تھا چنانچہ چند سمجھدار لوگوں نے اس شخص کو برا بھلا کہہ کر اور تقریباً دھکے دے کروہاں سے فوری طور پر چلے جانے کو کہا۔ وہ شخص کئی لوگوں کی ملامتیں اور دھکے وصول کرتا ہوا کہ دروازے کی

جانب گیا اور جلد ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ہم نےارد گرد دیکھا اور محسوس کیا کہ وہاں پر موجود دیگر خواتین کے چہروں پرشرمندگی، ناگواری اور بد مزگی کے تاثرات ابھر چکے تھے۔ اور وہ اب اپنے گرد و پیش سے قدرے محتاط ہوچکی تھیں۔ کچھ کم عمر لڑکیاں تو ایسی بھی تھیں جو چہروں پر سوالیہ انداز سجائے ہوئےاپنی مائوں ، بڑی بہنوں یا بھابیوں سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا ہوا تھا۔ تاہم وہ خواتین ان لڑکیوں کو کچھ بھی بتانے سے گریزاں تھیں۔ یقینی طور پر اس سوال کا جواب دینا ان کےلئے مشکل تھا کیونکہ کئی معصوم ذہن اس تصور کو بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر تھے کہ ایسا بھی کچھ ہوتا ہوگا۔ چند روز بعد میں اور شاہ جی ایک ریڑھی سے گنڈیریاں خرید کر انھیں چوستے ہوئے اپنی ہی گپ شپ میں مگن اور گردو پیش سے بے نیاز ہوکر سڑک کی ایک جانب چل رہے تھے۔ ہمارے آگے تین چار خواتین کا ایک گروہ چل رہا تھا جس میں ایک بڑی عمر کی جبکہ تین جواں سالہ لڑکیاں چل رہی تھیں۔ وہ خاصی آہستہ چل رہی تھیں۔اس لئے ہم جھنجھلا کر قدرے تیز رفتاری سے چلتے ہوئے ان سے آگےنکل گئے۔ ابھی ہم ان سے دس یابارہ قدم ہی آگئے ہوں گے کہ ہمیں ایک چیخ کی آواز سنائی ۔ اس سے قبل کے ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے۔ تین موٹر سائیکل نوجوان ہمارے بالکل قریب سے گزرتے ہوئے قہقہے مارتے ہوئےآگے نکل گئے۔ اوراسی مختصر سے وقت میں لڑکیوں کے منہ سے ” کمینے ،کتی دے بچے ، ذلیل، لعنتی انسان ” کی آوازیں سنائی دیں۔ ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو چاروں مائیں بیٹیاں ایک جگہ کھڑی تھیں ۔اور لڑکیاں روہانسی منہ بنائے ہوئے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ لڑکیوں کی والدہ انتہائی پریشان اور پر تشویش لہجے سے پنجابی میں اپنی بیٹیوں سے پوچھ رہی تھی ” کی کیتا اونا ں منڈیاں نے” (ان لڑکوں نے کیا کیا تھا)”۔ لڑکیاں اپنی والدہ کو کچھ بتانا چاہ رہی تھیں لیکن یکایک ان کی نظریں ہم پر پڑیں جو کھڑے ہوکر انھیں دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ خاموش ہو گئیں۔ ایک لڑکی کی آواز سنائی ” امی جی ! لنگدیاں بد تمیزی کر کے گئے نے “”” (امی جان ، پاس سے گزرتے ہوئے بدتمیزی کر کے گئے ہیں )ہم نے ان خواتین پر بیتی صورتحال کا جلد اندازہ لگا لیا اور وہاں رکنے اور تماشہ دیکھنے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے وہاں سے چل دیے۔شاہ جی جس گنجان آباد علاقے میں رہتے ہیں وہاں پر بیشتر گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ وہاں سے ایک وقت میں بمشکل تین یا چار لوگ ہی گزر سکتے ہیں۔ ایک روز میں شاہ جی کی طرف گیا۔ ہم نے اسی گلی میں واقع ایک دوکان سےٹھنڈ ی مشروب خریدی اور دوکان کے ساتھ ہی کھڑے ہوکر پی رہے تھے کہ اچانک سامنے والے دروازےسے شو رکی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ آواز دھیرے دھیرے بلند ہونے لگی۔ اچانک دروازہ کھلا اور ایک خاتون شور مچاتی ہوئی باہر آئی، اور آتے ہی دوکاندار کوبلایا،” پا نزیر ذرا ایدر آئیں۔ تسی وی آجائو وے منڈیو” (بھائی نزیر ذرا ادھر آنا،لڑکو تم بھی آجائو)ہم پہلے تو ہچکچاتے ہوئے وہاں کھڑے رہے لیکن جب دوکاندار اپنی کرسی سے اٹھ کر اندر چلا گیاتو ہم بھی پیچھے پیچھے جاگھسے۔ دوکاندار اند ر داخل ہوکر بائیں جانب واقع ایک بیٹھک کی طرف گیا۔ہم کچھ دیر رکے۔ اور پھر اس کے پیچھے پیچھے

اندر چلے گئے ،اندر کا منظر بڑا عجیب تھا۔ چارپائی پر ایک شخص بیٹھا تھا جس کو دو خواتین نے بالوں اور گریبان سے پکڑ کر قابو کیا ہوا تھا۔اور ساتھ ہی ساتھ تھپڑمار رہی تھیں۔ وہ خاتون جو باہر ہمیں بلا نے آئی تھی وہ بھی جوتا اتار کر اس کی خوب آئو بھگت کر رہی تھی۔ دور کونےمیں ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی کھڑی ہوئی نیچے منہ جھکائے ہوئے رو رہی تھی اور اپنا منہ اپنے ہاتھوں سے چھپا رہی تھی۔کمرے میں ایک کہرام برپا تھا۔ خواتین تشدد کے ساتھ ساتھ اس شخص کو اونچی آواز میں گالیاں دے رہی تھیں اور ہم نے دیکھا کہ ستائیس اٹھائیس کی عمر کا وہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنادفاع کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے رو تا ہوا کہہ رہا تھا” باجی میرے کولوں غلطی ہوگئی اے ،منوں معاف کر دیو، اج توں بعد میری پکی توبہ(باجی ! مجھ سے غلطی ہو گئی ہے،مجھے معاف کردو ، آج کے بعد میری پکی توبہ)۔شاہ جی نے میری جانب معانی خیز نظروں سے دیکھا۔شاہ جی کو جلد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ میں بھی صورتحال کو سمجھ گیا ہوں۔ دوکاندارنے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے صورتحال کی وجہ دریافت کی جس پر خاتون نے لمبی چوڑی پنجابی میں جو صورتحال بیان کی اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔(اس بے غیرت کو ہم نے پیروں کی طرح عزت دی۔ پورے ہزار روپے فیس دیتے رہے ۔ گھر میں جو بھی چیز بنتی ۔اس کے سامنے لا کر رکھتے تھے۔کچھ نہیں تو چائے تو ضرور پلاتے تھے۔آج ایک ہفتہ ہوگیا ہے کہ تنزیلہ چپ چپ رہتی ہے۔ نہ کچھ کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔ جب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا ہے تو ایک ہی بات کہتی ہے کہ میں نے سر سے نہیں پڑھنا۔ اگلے مہینے اس کا میٹرک کاامتحان ہے۔ ہم سمجھتے رہےکہ ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے وہ ڈری ہوئی ہے۔ ہم بضد رہےکہ اب ایک مہینے کےلئے نیا ٹیوٹرکہاں سے لائیں۔ تم اسی کے پاس پڑھو گی۔ ہماری بچی شر م و حیاوالی ہے۔ کوئی ایسی ویسی بات اپنے منہ سے نہیں کہہ سکتی۔وہ تو اللہ کا کرنا تھا کہ آج میں نے اس بے غیرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ یہ ہماری بچی کو گندے انداز میں چھو رہا تھا۔ اللہ کرے اس پر موت آئے۔ یہ کل اپنی بہن بیٹی کو اسی طرح کسی کے ساتھ دیکھے )خاتون نے اس دوران کئی مقامات پر رک کر اس شخص کو گالیاں دیں اور تھپڑوں کی بارش کی ۔ گفتگو کرتے ہوئے خاتون تھکاوٹ اور کرب کی وجہ سے ہانپنا شروع ہو گئی تھی۔ اور اس کی آوازبھی رندھ گئی تھی۔ یہ منظر خاصا رقت آمیز تھا۔ وہ لڑکی متواتر روئے جا رہی تھی ۔ دیگر دونوں خواتین بھی رورہی تھیں اور اپنے آنسو اپنے دوپٹوں سےصاف کررہی تھیں۔اس اثنا میں آس پاس کے تین چار لوگ مزید اس گھر میں داخل ہوگئے تھے۔ دو مردوں نے اس ٹیوٹر کو پکڑ لیا اور اس بار اس کی مردانہ دھلائی شروع ہو گئی اور اس کی چیخیں بھی بلند ہوگئیں۔ دوکاندار نے ان دونوں سے کہا کہ تم پکڑ کر رکھو میں پولیس کو بلاتا ہوں۔ پولیس کا نام سن کر ہم ” چشم دید گواہ بننے اور وقوعہ کی تفصیلات بتانے ” سے بچنے کےلئے چپکےسے وہاں سے کھسک گئے۔میں جس دفتر میںکام کرتا ہوں وہاں پر عملے کی تنخواہیں براہ راست بینک اکائونٹ میں منتقل کردی جاتی ہیں۔ مجھے اپنی تنخواہ نکلوانے کےلئے بینک جانا تھا۔میں چیک لے کر کیش کائونٹر کی لگی

قطار میں تیسرے یا چوتھے نمبر پر کھڑا تھا۔ا چانک ہال نما اس جگہ کی دوسری جانب ایک ٹیبل سے شور سنائی دیا۔ایک تئیس چوبیس سالہ لڑکی کھڑی تھی جو اپنے سامنےبیٹھے ہوئے منیجر کو کھری کھری سنا رہی تھی۔ آس پاس کا شور تھم گیاتو آواز نمایاں ہوئی ۔” آخر چاہتے کیا ہیں آپ۔ میں آپ کے شر سے تنگ آکر نوکری چھوڑ کر گھر پہ بیٹھ جائوں۔ جب کوئی پڑھی لکھی شریف لڑکی اپنے گھر والوں کو سپورٹ کرنے کےلئے نوکری کرنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو آپ جیسے لوگوں کی رال ٹپکنا شروع کر دیتی ہے۔ ہم نوکری اس لئے کرتی ہیںکیوں کہ ہمیں نوکری کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم سج دھج کر تیار ہوکر آپ کی گندی ہوس اور بھوک کو مٹانے یہاں آتی ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے”” (اس دوران منیجر کھسیانی صورت بنائے چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور ساتھ ہی اسے دھمکی آمیز لہجے میں آواز نیچی رکھنے کو کہتا رہالیکن لڑکی کی آواز اونچی ہوتی چلی گئی) ” کیوں آہستہ بولوں۔ اب آپ کو شرم آرہی ہے ۔ اپنی عزت مٹی میں ملتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ جب مجھے گھٹیا میسج کرتے ہیں۔ بہانے بہانے سے پاس بلواتے ہیں ۔ الٹی سیدھی باتیں منوانے کےلئے مجھ پر دبائو ڈالتے ہیں اور میرے انکار پر مجھ پر کام کا اضافی بوجھ ڈا ل دیتے ہیں تب آپ کو شرم نہیں آتی۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کے اس گھنائونےپن کی وجہ سے میں کتنی اذیت سے گزرتی ہوں۔ آپ مجھ سے کم از کم بیس پچیس سال بڑے ہیں۔ میں تو آپ سے دس بارہ سال چھوٹی آپ کی بیوی سے بھی دس یا بارہ سال چھوٹی ہوں۔اس لحاظ سے میں آپ کے بچوں جیسی ہوں۔آپ کی بھی بیٹی ہے۔ کوئی اسے بے حیائی کےلئے کھلونا بنانے کی کوشش کرے تب آپ کیا کریں گے؟ آپ کو کچھ بھی نہیںکرنا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ تو آپ بھی کرتے ہیں” ۔اس اثنا میں سٹاف کی دو خواتین اس لڑکی کے پاس گئیں۔ اور اس لڑکی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔ اور اپنی بات آرام سے بیٹھ کرتحمل سے کرنے کی تلقین کی۔ کیونکہ آخر یہ بینک کی ” ریپوٹیشن ” کا سوال تھا ۔لیکن وہ لڑکی اس روز شاید بھرپور ” فارم ” میں تھی۔ اس نے اپنی عزت پر حرف اٹھتے ہی بینک کی عزت کا بھی فالودہ بنا ڈالا۔وہ خود کو روکنے والی ان خواتین سے مخاطب ہوئی ” ثمینہ! عائشہ! کیسا لگے گا تم لوگوں کو جب تمھارے باپ کی عمر کا کوئی آدمی تم سے تمھارا سائز پوچھے۔ تم سے یہ پوچھے کہ آج تم نے کون سے پوشیدہ ملبوسات پہن رکھے ہیں۔ تم اس شخص کومیسج کرو کہ آج تمھاری طبیعت خراب ہے ، تمھیں چھٹی چاہیے ۔توتم سے تمھاری طبیعت خرابی سے متعلق گھٹیا سوالات کے میسج کرنا شروع کردے۔تمھیں اوٹ پٹانگ چیزیں گفٹ کرکے تمھیں ہراساں کرنےکی کوشش کرے۔ باہر اکیلے ملنے کا کہے۔ وجہ بے وجہ تمھیں پاس بلا کرگندی نظروں سے تمھارے جسم کو گھورے ،تمھارے نہ چاہتے ہوئے تمھیں چھونے کی کوشش کرے۔بولو! کیا تم چاہتی ہو ایسا۔ کیا یہ سب تمھارے ساتھ بھی ہورہا ہے؟ اور اگر ہو رہا ہے اور تم لوگ کمپرومائز کررہی ہو تو تم در حقیقت خود اس گھنائونے دھندے میں شریک جرم ہو۔اور تم لوگوں کی وجہ سے ہی ایسے بدکردار لوگوں کا حوصلہ بڑھا ہواہے۔ بتائو ایسا ہے یا نہیں ہے” ۔ یہ بات سنتےہی سمجھانے بجھانے آئی وہ دونوں خواتین بھی خاموش ہو گئیں۔اور ہاتھو ں میں ہاتھ باندھ کر نفرت آمیز انداز میں اس منیجر کی طرف دیکھنا

شروع کر دیا۔ بینک میں موجود کلائنٹس اور عملہ سب ہی منیجر کی کرسی کے گرد جمع ہو گئے تھے۔اور منیجر ہاتھ گال پر رکھے اور کہنی میز پر ٹیکے ہوئے نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر ایسی پیلاہٹ پڑ گئی تھی جیسے اس کے خون کی روانگی رک گئی تھی۔ بینک کا نوجوان سٹاف ایک جھنجھوڑے ہوئے ضمیر ، ہمدردی اور شرمندگی کے ملے جلے جذبات سے اس لڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔جس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی وجہ سے اس کا کاجل پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔میں شاید اپنی زندگی میں پہلے کبھی اس قدرحیران نہیں ہوا تھا۔ یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ یہ چکرا دینے والا واقعہ اورناقابل یقین مناظر تھے۔بظاہر بے حد دلکش سوٹ اور جوتے پہنے ،عالی شان گھڑی اور ٹائی باندھے گوری چٹی رنگت اور اچھی طرح سے سنوارے ہوئے سرمئی اور سفید بالوں والا وہ شخص گندگی کے گٹر میں ناک تک ڈوبا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ میں پیچ و تاب کھاتا ہواکائونٹر پر آیا، اپنا چیک کیش کروایا اور بین سے باہر نکل آیا۔ میں صحافت کے ساتھ ساتھ فری لانسنگ بھی کرتا ہوں۔ ایک پیج پر ایک خاتون کی ایک تحریر نظر آئی جو اپنے آپ میں خود ایک المناک داستان تھی۔ کہتی ہے” میں فری لانسنگ کے ایک پیج کی ممبر ہوں۔ جب بھی میرے ہنر سے متعلقہ کسی کام کی پیشکش نظر آئے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں وہ کام حاصل کرلوں۔ ایک شخص نےایسے ہی ایک کام سے متعلق فیس بک پوسٹ کی جس میں اس نے لکھا تھا کہ سفرنامے لکھنے پر عبور رکھنے والے ایسےمردو خواتین مصنف درکار ہیں جو اپنے ساتھ پیش آئے تجربات پر مبنی منفرد تحریریں لکھناجانتے ہوں۔دلچسپی رکھنے والے افرادان باکس کریں۔ میں یہ کام جانتی تھی۔اور کافی غیر ملکی ویب سائٹس پر بھی میں اپنا کام فروخت کر چکی تھی۔چنانچہ میں نے جلدی سے اس شخص کو میسج بھیجاکہ سر آپ میری خدمات حاصل کر سکتے ہیں ، میں ایکسپرٹ ہوں۔ آپ میرا پورٹ فولیوچیک کریں وغیرہ وغیرہ۔ چند ہی لمحے بعد اس شخص نے جوابی میسج کیا۔ اور مجھ سے میری تعلیم اور شہر سے متعلق معلومات لینا شروع کر دیں۔ اس کے سوالات کا سلسلہ لمبا ہوگیا ۔ اس لئے آخر کار میں نے اسے کہہ دیا کہ سوالات کی بجائے اب وہ یہ بتائے کہ وہ مجھےکام دینے میں دلچسپی رکھتا ہے یا نہیں ۔اور یہ کہ اس کو کتنے لفظوں پر مبنی کام چاہیے اور اس کام کا معاوضہ کیا ہوگا۔ تاہم وہ بضد تھا کہ پہلے وہ میرا انٹر ویو کرکے میری قابلیت جانچے گا اور پھر اس کے بعد یہ طے کرے گا کہ مجھے کام ملنا چاہیے یا نہیں۔ مجھے کام کی ضرورت تھی اس لئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے کئی سوالات غیر متعلقہ تھے۔ چارو نا چار جواب دیتی رہی۔ اب بھلا یہ پوچھنے کا کیا تک تھا کہ میری کنواری ہوں یا شادی شدہ۔ میرے مشاغل کیا ہیں، کون سے رنگ پسند ہیں، شعر و شاعری اور فلموں ڈراموں

میںدلچسپی ہے یا نہیں۔ اور یہ بھی کہ میرا کوئی بوائے فرینڈ ہے یا نہیں۔اس کے بعد وہ شخص میری رنگت اور جسامت کی معلومات لینے تک پہنچ گیا۔تاہم میں نے اسے کہہ دیا کہ مجھے اس کا کام چاہیے اور نہ ہی اس کے اس فضول انٹرویو سے کوئی دلچسپی ہے ۔ اور یہ کہہ کر اس سے بات چیت روک دی۔ اس کے بعد اس نے دو تین میسج کیے لیکن میرا جواب نہ ملنےپرآخر کار کہنے لگا کہ وہ مجھےکام دینے کا تیار ہے۔ جس کے بعد میں نے اس سے کام اور معاوضہ طے کر لیا۔ ہم دونوں میں طے پایا کہ میں اسے ٹریول رائٹنگ کا آرٹیکل تین دن میں مکمل کرکے دوں گی اور وہ مجھے پانچ ہزار روپے ادا کرےگا۔میں نے کام شروع کردیا۔ وقتاً فوقتاً وہ مجھے میسج کرتا رہا۔ شروع میں وہ مجھے میرے نام ” مس سونیا ” سے مخاطب کرتا رہا۔ جس کے بعد میرے نام سے مس والا لفظ مس ہی ہو گیا۔ اور وہ سونیا جی اور پھرصرف سونیا پرآگیا۔ یہاں تک تو خیر تھی ۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ الفاظ سونی، سونو اور سونا میں تحلیل ہو گئے۔ میں نے پیشہ ورانہ او ر محتاط انداز ہی اپنائے رکھا اور اسے ” سر” کہہ کر مخاطب کرتی رہی۔ اس نے مجھے کئی بار ٹوکا کہ میں اسے سر نہ کہوں بلکہ “کامران کہہ کر پکاروں تاہم میں نے ٹال مٹول اور کم سے کم گفتگو کرنے کی پالیسی ہی اپنائے رکھی۔ اس نے کام کے دوران ہی کئی بار اپنی بن ٹھن کر اعلیٰ اور مہنگے قسم کے سوٹ پہن کر تصاویر مجھے بھیجنا شروع کردیں۔ کئی موقعوں پر اس نے مجھے اپنی ذاتی کاروبار ی زندگی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی ،یہاں تک کہ اپنی گرل فرینڈز کا تذکرہ بھی چھیڑنےکی کوشش کی لیکن میں اسے یہ احساس دلانے کےلئے مسلسل نظر انداز کرتی رہی کہ مجھے اس کی نجی زندگی سے متعلق کچھ بھی جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میںاس کی ایسی حرکتوں اور کوششوں کے جواب میں کام سے متعلق کوئی بات پوچھ لیتی۔ وہ شخص نہ صرف بلا کا ڈھیٹ تھا بلکہ بے حد شاطر اور چالاک بھی تھا۔ وہ مجھ سے کام کی اپ ڈیٹ سے متعلق بھی پوچھتا رہتا ۔جلد ہی مجھے اس کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ جیسے جیسے کام اپنے عروج اور پھر انجام کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ویسے ویسے اس کے لب و لہجے میں بےہودگی،اخلاق باختگی اور گھٹیا پن بڑھتا چلا جا رہا تھا۔وہ جان چکا تھا کہ اب میرے کام سے پیچھے ہٹنے کا کوئی بھی امکان نہیں تھا۔ اور میں اس کام کو مکمل کرکے اپنا معاوضہ لینے میں دلچسپی رکھتی تھی ۔ گویا میں اب اس کے ساتھ پوری طرح انگیج ہوچکی تھی اور وہ اسی کا ناجائز فائدہ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔بداخلاقی کا نیا سلسلہ بھی نام سے ہی شروع ہوا۔ میں جو پہلے مس سونیا سے صرف سونیا، سونی ،سونو اور سونا بن چکی تھی ،اب سونا جانی، سونو ڈارلنگ،سونی سویٹ ہارٹ اور سونیا مائی لو کہلانا شروع ہو گئی تھی۔میں نے ایک دو بار اسے تنبیہ کی کہ وہ مجھے میرے صحیح نام سے پکارے اور اگر کام سےمتعلق کوئی ہدایات ہیں تو بات کرے۔ میں نےاسےیہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی بے جا مداخلت کی وجہ سے مجھے کام پر توجہ دینے میں دشواری پیش آرہی ہے لیکن اس کی ڈھٹائی ، ہٹ دھرمی اور چھچھورے پن سے مجھے بہر حال پریشانی کا سامنا رہا ۔ دل ہی دل میں مجھے ایک اور اندیشہ لاحق ہوچکا تھا اور وہ تھا کہ کہیں ا س شخص نے کلائنٹ کا یہ بہروپ صرف لڑکیوں کو کام دینے کے بہانے ان سے راہ و رست بڑھانے اور پینگیں

بڑھا کر انھیں اپنے جال میں پھنسانے کےلئے تو نہیں اپنا رکھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے کام میں سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو جوکہ لگ بھی رہا تھا۔ یا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مجھ سے کام لے لینے کے بعد معاوضہ دیتے وقت گھٹیا پن پر اتر آئے اور الٹے سیدھے مطالبےکرے۔ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ مجھے اپنے معاوضے سےدستبردار ہونا پڑے گا۔ لیکن اتنی محنت کرنے اور وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بے ہودگی برداشت کرنےکے باوجود معاوضہ وصول نہ کر پانا میرے لیئے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں تھا۔ خیر میں نےاللہ کے بھروسے پر ان خدشات کو ایک طرف رکھ کر اپنا کام جاری رکھا۔ خدشات تو صرف خدشات ہی تھے لیکن دوسری جانب اس کی بے حیائی تھی جو حقیقت کا روپ دھار کر ہر تھوڑی دیر کے بعد کسی نہ کسی شکل میں میرے سامنے ہوتی تھی۔اس نے مجھے ایسی تصاویر بھیجنا شروع کردیں جن میں فحاشی کا عنصر رفتہ رفتہ بڑھ رہا تھا۔ میرا ضبط پہلے ہی جواب دے چکا تھا لیکن میں نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا کہ اس سے بدتمیزی یا غصے سے بات کرنے کا نتیجہ میری ساری محنت رائیگاں ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے اس لئے حد درجے تک نظر انداز کروں۔ میں اس کی بھیجی ہوئی تصویریں ڈیلیٹ کرتی رہی۔ پھر اس نےمجھے میسج بھیجناشروع کردیے اور کہا کہ میں ان تصویروں کو دیکھ کر ان پر تبصر ہ کروں کہ ان میں دکھائے گئے انداز مجھے پسند ہیں یا نہیں۔ میں نے اسے لمبا چوڑا میسج لکھ کر بھیجا کہ وہ خدا خوفی کرے۔ جس کام پر مجھے مامور کیا ہے وہ کام مجھے مکمل کرنے دے ۔اور مجھے بتائے کہ مجھے میرے پیسے کس ذریعے سے ادا کرے گا۔ جس پر وہ تلملا اٹھا۔ اور مجھے نخریلی ، مغرور ، خود سر ، اپنے آپ کو کچھ سمجھنے والی، کسی کو خاطر میں نہ لانے والی، گھمنڈی اور پتہ نہیں کیا کیا کہنا شروع کردیا۔میں جانتی تھی کہ وہ مجھے بناوٹی غصے اور مصنوعی ناراضگی سے بلیک میل کررہا تھا لیکن کام ختم ہونے کے نزدیک ہونے کا مرحلے آنےکی وجہ سے مجبور ہوکر دفاعی انداز اپناتی رہی اور اسے سمجھاتی بجھاتی رہی کہ شاید اسے ترس ہی آجائے اور وہ مجھے تنگ کرناچھوڑ دے۔لیکن اس کم بخت کے سر پر کوئی اور ہی بھوت سوار تھا ۔اس کے بعد وہ مجھ سے کھل کر میرے جسم سےمتعلق غیر اخلاقی سوالات پوچھنا شروع ہو گیا ۔اور تصویروں اور ویڈیو کال کے مطالبات شروع کردیے۔ میں حیران تھی کہ میں نے اس ذلیل انسان سے کسی ایک بھی موقع پر ایسے لہجے میں بات نہیں کی کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوکر مجھ سے ایسی بات کرنے جرات کرے۔ میرے اتنے سنجید ہ، سلجھے ہوئے اور سمجھدار رویے کے باوجود وہ کسی بھی طرح اپنی گندی ہو س کو لے کر میرا گھیرائو کرنےپر تلا ہوا تھا۔ تاکہ میں ہار مان کرہتھیار ڈال دوں اور اپنا آپ اس کے حوالے کردوں۔اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کس قسم کی لڑکی تھی جو ایسے بے ہودہ آدمی کو برداشت کررہی تھی۔اسے چاہیے تھا کہ اس کے کام پر لعنت بھیج دیتی وغیر ہ

وغیرہ۔ تو میں بتاتی چلوں کہ کم از کم پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل ٹریول رائٹنگ کا آرٹیکل لکھنے کےلئے مجھے درجن بھر ویب سائٹس کا مواد اکٹھا کرنا پڑاتھا، ایڈیٹنگ کرنا پڑی تھی۔ اپنے لکھے ہوئے مواد کو معیاری شکل دینا پڑی تھی اور گرائمر ، سپلینگ، پنکچوایشن اور جملوں کی غلطیوںکی درستگی کےلئے اس آرٹیکل کوکئی بار پروف ریڈ بھی کرنا پڑا تھا۔ایسے میں میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو شاید پسپائی اختیار نہ کر پاتا۔ اور وہ شاید اس کھیل کا ماہر تھا۔میں جیسے تیسے اس کا کام مکمل کرلیا اور اسے آگاہ کیا۔ اس کا جواب وہی تھا جو میں جانتی تھی۔ اس نے اصرار کیا کہ میں اسے کام ای میل کے ذریعے بھجوا دوں۔ اور وہ مجھے اس کے بعد ادائیگی کردے گا۔میں نے بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا ، غور کیا اور پھر اپنا فیصلہ اسے سنادیا۔ اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ میں کسی بھی صورت میں اسے کام اس وقت تک نہیں بھجوائوں گی جب تک وہ رقم ادا نہیں کرے گا ۔ ہاں یہ یقین دلانے کےلئے کہ میں اس کا کام واقعی مکمل کرچکی ہوں ۔ اسے کا م کے کچھ سکرین شاٹس بھجوا دوں گی۔اس نے بہتیری ضد کی کہ میں اس پر اعتبار کروں ۔ مکمل کام بھیج دوں ۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں ڈٹی رہی کہ رقم ادائیگی تک کام نہیں بھجوائوں گی۔ میں بہت اچھی طرح جان گئی تھی کہ اگر ایک بار میں نے اس کو کام بھجوا دیا تو یہ شخص مجھے رقم ادائیگی کےلئے اپنے انھی گندے اور اخلاق باختہ مطالبات پورے کرنے کی شرط عائد کردے گا اس لئے کام پہلے بھجوانے سے صاف انکار کردیا۔ اس پر اس نے ایک نئی چال چلی ۔ کہنےلگا کہ وہ ایک شرط پر رقم پہلے اداکرنےکو تیار ہےاور وہ شرط یہ ہے کہ میں رقم لینے کےلئے اسے ملنے جائوں اور برا ہ راست اس سے رقم وصول کروں ۔ میں یہ سننے کےلئے بھی پہلے سے تیار تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ پہلے پلان کی ناکامی کی صورت میں پلان بی تھا۔ لیکن میں نے اسے بھی ناکام بنا دیا اور کہاکہ میں رقم صرف ایزی پیسہ یا بینک اکائونٹ کے ذریعے کی قبول کروں گی اور مجھے ملاقات میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ اس کی ضرورت۔جس پر وہ شخص کسی بھی قسم کی ادائیگی یا کام لینے سے انکاری ہوگیا اور بڑھکیں مارنا شروع کردیں کہ رکھو اپناکام اپنے پاس ۔ نہیں چاہیے مجھے۔ ایک پیسہ بھی ایڈوانس نہیں دوں گا وغیرہ وغیر ہ ۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے اس بات سےبھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نہ و ہ پیسے دے اور نہ میں کام بھیجوں گی۔ اسکی اس چال کا مقصد بھی مجھے پیشگی رقم ادائیگی کے موقف سے پیچھے ہٹانا تھا۔لیکن اللہ کی مدد اور رہنمائی سے میرے راستے اس مشکل وقت میں خود ہی کھلنا شروع ہو گئے تھے۔ بنیادی طور پر وہ شخص کمینہ اور کم ظرف تھا ۔ اپنی پچھلی ساری چالوں میں ناکامی پر اس نے مجھے نیچا دکھانےاور ہرانے کی غرض سے اگلی بات یہ کہی کہ وہ مجھےکام کی پیشگی ادائیگی کی صورت میں پانچ نہیں بلکہ صرف تین ہزار روپے ادا کرے گا۔ میں اس ہتھکنڈے کو بھی پہلے سے بھانپ چکی تھی ۔ اس بار بھی میں نےہار نہیں مانی اور کہا کہ تین ہزار تو کیا ، میں چار ہزار نو سو ننانوے روپے بھی قبول نہیں کروں گی۔ مجھے میری رقم پوری کی پوری چاہیے۔اگلا سبز باغ دکھانے کےلئے اس نے مجھے بتایا کہ وہ کئی

بھاری بھرکم معاوضہ دینے والے کلائنٹس کر کہہ کر مجھے ماہانہ لاکھوں روپے معاوضے والےکام دلواسکتا ہے۔ میں نے سادہ الفاظ میں اسے بتایا کہ مجھے اس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کا کوئی بھی کام نہیں چاہیے ۔ چاہے وہ لاکھوں نہیں کروڑوں کا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اس نے مجھے دھمکایاکہ وہ مجھے فری لانسنگ کمیونٹی میں بدنام کردے گا۔ اور کوئی بھی شخص مجھےکام نہیں دے گا۔ جس پر میں نےاسے یاد دلا یا کہ اس کے کیے ہوئے سینکڑوں بے ہودہ میسجز میں نے اپنے پاس سکرین شاٹس کی صورت میں محفوظ کر لیے ہیں ۔اورجب ، جیسے ، جس طرح میرا دل کیا ، میں اس کی کاروباری ساکھ کو برباد کرنے میں ذرا برابر بھی نہیں ہچکچائوں گی۔ ایک کے بعد ایک محاذ پر ناکامی سے تنگ آکر اس نے میرے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور مجھےرقم بھجوا دی، جس کے بعد میں نے اس کو اس کا کام بھجوا دیا۔

FOLLOW US