اسلام آباد (آ ئی این پی)اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام قبول کرنے والی گھوٹکی کی 2 بہنوں کو اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی، عدالت نے کہا کہ انکوائری کمیشن 14 مئی تک رپورٹ اور حتمی سفارشات پیش کرے جبکہ سیکرٹری داخلہ لڑکیوں اور ان کے شوہروں کو حفاظت دینے کے پابند ہوں گے،اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیکرٹری داخلہ نے
تصدیق کی کہ گھوٹکی کی ہندو بہنوں نے مرضی سے اسلام قبول کیا،یہ زبردستی مذہب تبدیلی کا کیس نہیں لگا، بلکہ یہ اس علاقے کے مقامی کلچر کا حصہ بن چکا ہے، جمعرات کو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے گھوٹکی کی ہندو مذہب چھوڑنے والی 2 نومسلم بہنوں کی تحفظ فراہمی کی درخواست پر سماعت کی تو تحقیقاتی کمیشن کی عبوری رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی۔سیکرٹری داخلہ نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ عدالتی ہدایت پر جبری مذہب تبدیلی کے الزام کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنایا گیا، 9 اپریل کو وفاقی وزیر انسانی حقوق شیری مزاری اور قومی کمیشن حقوق خواتین کی چیئر پرسن خاورممتاز نے لڑکیوں سے ملاقات کی، ان کے شوہروں سے بھی ہماری ملاقات ہوئی، یہ زبردستی مذہب تبدیلی کا کیس نہیں لگا، بلکہ یہ اس علاقے کے مقامی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ سندھ حکومت نے بھی رپورٹ پیش کی جس کے لیے کمشنر اور ڈی آئی جی سکھر نے کمیشن کی معاونت کی، ہم نے رحیم یارخان کے ڈی سی او کو بھی بلا کر رپورٹ مرتب کی، 9 اپریل کو دونوں لڑکیوں کی میڈیکل رپورٹس بھی آگئی ہیں جن کے مطابق دونوں لڑکیاں بالغ ہیں، آسیہ کی عمر 18 سال اور نادیہ 19 سال کی ہے، یہ زبردستی مذہب تبدیلی نہیں ہے بلکہ وہاں کے حالات کے مطابق ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اقلیتوں کو شبہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے حقوقِ محفوظ نہیں، کمیشن کے ارکان بڑی عزت کے حامل لوگ ہیں اور ہمیں ان پریقین ہے، واضح ہوگیا کہ لڑکیاں بالغ ہیں اور زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا، ڈاکٹر رمیش کمار حکومتی پارٹی سے ہیں، وہ سیاسی فورمز پر معاملہ اٹھائیں۔چیف جسٹس نے آئی اے رحمان سے استفسار کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے
۔ آئی اے رحمان نے بتایا کہ جن مراکز پر لڑکیاں مسلمان ہوتی ہیں ان کو ریگولرائز کیاجائے، یہاں زبردستی مذہب تبدیلی کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ پراعتماد ہے ان کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتے، پارلیمنٹ خود ایسے معاملات پربحث کرائے۔کمیشن کی رکن خاور ممتاز نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ یہ حساس معاملہ تھا ہم نے اس کی چھان بین کی، لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کے لئے اسلام قبول کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے اقلیتوں کے حقوق کو سامنے رکھ کر یہ کیس آگے چلایا، لڑکیوں کواجازت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ رہیں۔ ہائی کورٹ نے سماعت کے بعد لڑکیوں کو اپنے شوہروں کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔