ایک غریب خاندان تھا، یہ خاندان پانچ افراد پر مشتمل تھا، اکثر ان کے گھر میں فاقے رہتے تھے. گھر کا سربراہ اکثر بیمار رہتا تھا.آخر کار وہ بیماری کی وجہ سے فوت ہو گیامدیہات میں فوتگی پر رشتہ دار یا محلے دار فوتگی والے گھر کے لیے کھانا بناتے ہیں، اِس لیے ان کے پڑوسیوں نے تین چار دن تک ان کے لیے کھانا بھیجام گو کے ان کا والد فوت ہو چکا تھا
اور وہ غمگین تھے مگر یہ تین چار دن اس خاندان کے لیے اچھےگزرے کیونکہ زمانہ گزر چکا تھا انہوں نے ایسا اچھا کھانا نہیں کھایا تھا. اس کے بعد ماں نے کچھ کام کاج کرکے بچوں کے لیے کچھ دن تک کھانے کا بندوبست کیا، مگر اس کے بعد گھر میں دوبارہ فاقوں کی نوبت آ گئی، ان فاقوںکی وجہ سے اس کا آٹھ سالہ بیٹا بیمار پڑ گیا. اس کی بیماری کو دیکھتے ہوئے ایک دن اس کی پانچ سالہ بچی نے اپنی والدہ سے سوال کیا کہ اماں بھائی کب مرے گا. یہ الفاظ سننے تھے کہ ماں کی ممتا تڑپ اٹھی کہا کہ بیٹی ایسا کیوں بول رہی ہو؟ تو بچی نے بڑے معصوم انداز میں کہا کہ ’’اماں بھائی مرے گا تب ہی گھر میں کھانا آئے گا ناں.‘‘ غریبوں کی یہ حالت ہے کہ ان کے گھر کھانے کو کچھ نہیں اور ہم لوگ اللے تللوں میں لگے ہوئے ہیں، یہ چیز تقاضا کرتی ہے کہ صدقہ خیرات صرف رمضان یا کسی مخصوص دن کو ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو غریبوں میں دیتے رہنا چاہیے تاکہ ان کی روزمرہ کی ضرورتیں پوری ہو سکیں. اس مسیج کو شیئر کرنا مت بھولئے گا۔