رات کے برگر میں سے آدھا بچا کر صبح کھانے والا ایک کنجوس ترین شخص چک فینی دنیا کا امیر ترین انسان کیسے بنایا ؟معروف صحافی وکالم نگار جاوید چوہدری نے سبق آموز سچی کہانی بیان کردی
چک فینی 1931 میں نیو جرسی کے شہر الزبتھ میں پیدا ہوا‘ گریجوایشن کی اور ائیرفورس میں بھرتی ہو گیا‘ وہ پہلے شمالی کوریا بھجوایاگیا اور پھر جنوبی کوریا میں پوسٹنگ ہو گئی‘ وہ جنگوں کا زمانہ تھا‘ وہ لڑتا رہا‘ لڑتے لڑتے وہ ائیرفورس میں ریڈیو آپریٹر بن گیا‘ وہ 1950 کا سن تھا۔نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔چک فینی
نے ڈیوٹی فری شراب لی اور وہ یہ شراب لے کر آفیسر میس میں آ گیا‘ میس میں اس دن شراب کم پڑ گئی‘ ساتھیوں کو جشن کے لیے شراب چاہیے تھی‘ چک فینی کے پاس فالتو تھی چنانچہ اس نے اضافی بوتلیں ساتھیوں کو فروخت کر دیں‘ یہ ایک سودا اسے ملازمت سے کاروبار میں لے آیا‘ اس نے ڈیوٹی فری شراب سپلائی کرنا شروع کردی‘ کاروبار چل نکلا اور وہ دنوں میں امیر ہو گیا۔ وہ کوریا سے واپس آیا‘ ائیرفورس ترک کی اور کارنیل یونیورسٹی کے اسکول آف ہوٹل ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لے لیا‘ ہوٹل مینجمنٹ میں ڈگری لی اور کاروبار شروع کر دیا‘ اس نے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈیوٹی فری شاپرز گروپ (ڈی ایف ایس) بنایا‘ یہ گروپ امریکا کے مختلف ائیرپورٹس پر ڈیوٹی فری تمباکو‘ شراب اور گاڑیاں سپلائی کرتا تھا‘یہ کاروبار چل نکلا اور چک فینی کی امریکا کے زیادہ تر ائیرپورٹس پر اجارہ داری قائم ہو گئی‘ یہ اس کے بعد یورپ اور مشرقی بعید گیا اور وہاں بھی چھا گیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایف ایس دنیا بھر کے مسافروں کا پسندیدہ ریٹیلر برانڈ بن گیا‘ 1990 آیا تو تین پارٹنرز کو تین تین سو ملین ڈالر منافع ہو گیا‘یہ 1990 کی دہائی میں ایک بڑی رقم تھی‘ چک
فینی اور اس کی کمپنی آنے والے دنوں میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی رہی۔ ہم یہاں یہ کہانی روکتے ہیں اور چک فینی کی ایک دلچسپ عادت بلکہ فطرت کا ذکر کرتے ہیں۔ چک فینی امریکا کے انتہائی کنجوس لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ بچپن سے کنجوس تھا‘ یہ جوانی تک رات کا بچا ہوا برگر صبح کھاتا تھا‘ یہ کوک کی بوتل بھی دو دو دن تک پیتا رہتا تھا‘ اس نے دو شادیاں کیں‘ پہلی بیوی ڈینئل فرنچ تھی‘ اس سے چار بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا لیکن اس نے کنجوسی کی وجہ سے اس سے طلاق لے لی‘ اس نے دوسری شادی اپنی سابق سیکریٹری سے کی‘ یہ بھی پوری زندگی اس کی فطرت کی وجہ سے پریشان رہی۔ آپ اس کی کنجوسی ملاحظہ کیجیے‘ یہ امریکا کے ارب پتیوں میں شمار ہوتا ہے‘ اس نے 2016میں دو بلین ڈالر منافع کمایا تھا‘ یہ اس وقت بھی اربوں ڈالرز کے شیئرز کا مالک ہے لیکن یہ آج سان فرانسسکو میں کرائے کے فلیٹ میں رہتا ہے‘ یہ 75 سال سے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر رہا ہے‘ ذاتی گاڑی موجود ہے لیکن یہ پٹرول کی وجہ سے گاڑی گیراج سے نہیں نکالتا‘ کتابیں‘میگزین اور اخبارات پلاسٹک کے شاپنگ بیگز میں رکھتا ہے۔اس نے پوری زندگی
بڑے ریستوران میں کھانا نہیں کھایا‘ یہ فائیو اسٹار ہوٹل میں مقیم ہو تو یہ کھانے کے وقت ہوٹل سے نکل کر چھوٹے ہٹس ریستورانوں میں جاتا ہے اور دو اڑھائی ڈالر کا برگر لے کر کھا لیتا ہے‘ منرل واٹر نہیں خریدتا‘ ٹونٹی کا پانی پی لیتا ہے‘ یہ ان ایک فیصد امریکیوں میں بھی شامل ہے جو تلوے گھس جانے کے بعد جوتوں کے سول تبدیل کراتے ہیں‘ چک فینی کے پاس صرف تین سوٹ ہیں‘ یہ شرٹس‘ پتلون اور جرابیں بھی دو دو سال چلاتا ہے‘ یہ شراب خانوں‘ مہنگی کافی شاپس اور برانڈڈ شاپنگ سینٹرز میں بھی نہیں جاتا۔ یہ ہوائی سفر کے دوران ہمیشہ اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے‘ اس نے پوری زندگی کسی بھکاری کو بھیک نہیں دی‘ یہ کسی کو کھانے کی دعوت نہیں دیتا‘ اس سے ملنے والوں کو اپنی کافی‘ اپنا پانی اور اپنا برگر خود خریدنا پڑتا ہے اور یہ گراسری خریدنے کے لیے بھی ہمیشہ سیل کا انتظار کرتا ہے‘ یہ ایک ڈالر بچانے کے لیے تین تین کلو میٹر پیدل سفر بھی کر لے گا چنانچہ یہ ہر طرف سے امریکا کا کنجوس ترین ارب پتی ہے۔یہ ایک اذیت ناک شخص ہے لیکن یہ اس اذیت ناک کنجوسی کے باوجود بل گیٹس اور وارن بفٹ جیسے لوگوں کا ہیرو کہلاتا ہے یہ لوگ ہمیشہ اٹھ
کر اس کا استقبال کرتے ہیں اور اپنی ہر تقریر میں اس کا حوالہ دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں‘ کاش آپ اور ہم چک فینی کا مقابلہ کر سکتے‘ یہ لوگ چک فینی کو اپنا ہیرو کیوں سمجھتے ہیں؟ یہ ایک اور دلچسپ داستان ہے اور اس دلچسپ داستان کا آغاز 1996 میں ہوا۔1996 میں فرانس کے ایک گروپ نے چک فینی کی کمپنی کے شیئرز خرید لیے‘ شیئرز کا سودا ہو گیا تو پتہ چلا چک فینی نے اپنے 37 اعشاریہ 75 فیصد شیئرز خیرات کر دیئے ہیں‘ یہ رقم اس وقت پونے دو ارب ڈالر بنتی تھی اور یہ اس وقت امریکا کی سب سے بڑی خیرات تھی‘ کمپنی نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا چک فینی کا بزنس جب ترقی کرنے لگا تھا تو اس نے 1982 میں ’’اٹلانٹک فلنتھراپیز‘‘ کے نام سے ایک خیراتی ادارہ بنایا اور نہایت خاموشی سے اپنی کمپنی کے پونے 38 فیصد شیئرز اس ادارے کو دے دیئے۔ چک فینی کی اس خدمت کی 1996 تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی‘ یہ راز مزید بھی راز رہ سکتا تھا اگر فرنچ کمپنی ڈی ایف ایس کے شیئرز نہ خریدتی‘دنیا کو اس ڈیل کے دوران پتہ چلا وہ جس شخص کو امریکا کا کنجوس ترین شخص سمجھتی ہے وہ دنیا کا سخی ترین شخص ہے‘ اس نے اپنی
دولت دکھی اور بے بس انسانیت کے لیے وقف کر رکھی ہے‘ چک فینی اب تک کارنیل یونیورسٹی کو ایک بلین ڈالر کا عطیہ دے چکا ہے‘ اس نے نیویارک میں کارنیل یونیورسٹی کا سٹی ٹیک کیمپس بھی بنوایا‘ اس پر اس کے ساڑھے تین سو ملین ڈالر خرچ ہوئے۔ اس کے والدین آئر لینڈ سے نقل مکانی کر کے امریکا آئے تھے‘ اس نے آئر لینڈ میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک بلین ڈالر کا عطیہ دیا اور وہ ویتنام کی جنگ میں بھی شریک ہوا تھا‘ اس نے ویتنام کو صحت کے شعبے میں آٹھ بلین ڈالر امداد دی‘ بل گیٹس اور وارن بفٹ نے 2010 میںدی گیونگ پلیج (The Giving Pledge) کی تحریک شروع کی‘ یہ لوگ اس تحریک کے ذریعے دنیا کے امیر ترین لوگوں‘ صنعت کاروں‘ تاجروں‘ سرمایہ کاروں اور ارب پتی شہزادوں سے وعدہ لیتے ہیں۔ یہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی دولت کا بڑا حصہ انسانی فلاح کے لیے وقف کر دیں گے‘ یہ تحریک بل گیٹس اور وارن بفٹ نے شروع کی‘بل گیٹس اپنی دولت کا 95 فیصد جب کہ وارن بفٹ اپنی دولت کا 99 فیصدغریبوں کے لیے وقف کر چکے ہیں اور یہ دونوں اس کے بعد ارب پتیوں کے پیچھے لگ گئے‘ یہ اب تک 22
ملکوں کے 187 ارب پتیوں سے دستخط اور وعدہ لے چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنی کمائی کا نصف سے زائد حصہ فلاح انسانی کے لیے وقف کر جائیں گے‘ چک فینی بھی 2011ء میں دی گیونگ پلیج کا حصہ بن گیا اور یہ اپنی دولت کا خطیرحصہ وقف کر چکا ہے‘ وارن بفٹ اسے اپنا اور بل گیٹس کا ہیرو قرار دے چکا ہے‘ اس کا کہنا ہے ہم سب لوگ بتا کر اللہ کے نام پر خیرات کرتے رہے لیکن چک فینی نے اپنا سب کچھ انسانیت کے لیے وقف کر دیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی‘ یہ ہم سے بہت آگے‘ بہت بہتر ہے۔ چک فینی کا خود کہنا ہے ’’میں نے زندگی میں بے شمار خیالات‘ بے شمار آئیڈیاز تبدیل کیے لیکن میرا ایک آئیڈیا مستقل تھا اور مستقل رہے گا اور وہ آئیڈیا اپنی دولت کو دوسرے لوگوں کی فلاح کے لیے خرچ کرنا ہے‘‘ اس کا کہنا ہے‘ وہ لوگ بدنصیب ہوتے ہیں جو یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ان کی دولت کسی شخص کا دکھ‘ کسی کا درد بھی کم کر سکتی ہے‘ اس کا کہنا ہے‘لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں تمہاری نظر میں خوشی کیا ہے تو میں ان کو جواب دیتا ہوں‘ میں اگر کوئی کام کر رہا ہوں اور میرے اس کام سے دوسرے لوگوں کی مدد ہو رہی ہے‘ ان کی زندگی تبدیل ہو رہی
ہے تو میں خود کو خوش اور خوش نصیب سمجھنے لگتا ہوں لیکن اگر میرے کام سے لوگوں کو کچھ حاصل نہیں ہو رہا‘ ان کی لائف میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہو رہا تو پھر میں اداس ہو جاتا ہوں چنانچہ لوگ میری خوشی ہیں اور اس کاکہنا ہے‘ دنیا کا ہر شخص اپنے اور اپنے خاندان کے لیے دولت کماتا ہے لیکن آپ اگر دوسروں کے لیے کما رہے ہیں‘ آپ اگر دوسروں کی مدد کر رہے ہیں تو یہ کمال ہو گا‘ آپ کو پھر اشرف المخلوقات کہلانے کا مزا آئے گا۔ آپ دیکھئے دنیا میں ایک ایسا ارب پتی بھی موجود ہے جو دوسروں کے لیے کنجوسی کر رہا ہے‘ جو اس لیے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور کافی شاپس سے کھانا نہیںکھاتا کہ وہ دو تین ڈالر بچا سکے اور یہ ڈالرز بعد ازاں کسی ضرورت مند کے کام آ سکیں اور جس نے ارب پتی ہونے کے باوجود آج تک گھر اور مہنگی گاڑی نہیں خریدی اور جو اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے‘بسوں اور ٹرینوں میں دھکے کھاتا ہے اور گراسری کے لیے دو دو میل پیدل چلتا ہے اور یہ رقم بچا کر تیسری دنیا کے ان طالب علموں کے حوالے کر دیتا ہے جو صرف پیسے کی کمی سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے یا جو غربت کی وجہ سے دل‘ معدے اور ہڈیوں کا
علاج نہیں کر پاتے اور جو بستر مرگ پر لیٹ کر اللہ کی مدد کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی کیا شخص ہے جو دو ڈالر کا برگر کھائے گا اور تیسرا ڈالر اس شخص کے لیے بچا لے گا جسے یہ جانتا ہے اور نہ یہ اسے جاننے کی خواہش رکھتا ہے‘ یہ پوری زندگی دو تین سے زیادہ سوٹ نہ خرید سکا تاکہ اس کی کمائی ہوئی رقم کسی بے بس کا تن ڈھانپ سکے‘ یہ کسی بیمار کی شفاء کا ذریعہ بن سکے‘ یہ بھی کیا کنجوس فرشتہ ہے‘ یہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر دوسرے کے بھوکے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے۔ یہ خود کرائے کے فلیٹ میں رہتا ہے لیکن دوسروں کے سروں پر علم کی چھت تان رہا ہے‘ کاش میں امریکا جا کر چک فینی کے ہاتھ چوم سکوں اور اس سے یہ کہہ سکوں ‘دنیا میں اگر کوئی شخص جنت کا حق دار ہے تو وہ تم جیسے لوگ ہیں‘ وہ لوگ جو مصیبتوں کے اس گھر کو سکھی اور رہنے کے قابل بنا رہے ہیں‘ جو خود تنگدست رہ کر دوسروں پر زندگی کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں‘ تم لوگ فرشتے ہو۔