8 مارچ کو لاہور اور اسلام آباد میں خواتین کے مارچوں میں شرمناک جملوں پر مبنی پوسٹر اور نوجوان ماڈرن لڑکیاں ۔۔۔۔ آخر یہ سازش کس نے اور کس مقصد سے تیار کی ؟ سینئر پاکستانی صحافی نے اندر کی کہانی بیان کر دی
کہاں تصورِ وجود کائنات ۔۔کہاں وجہِ وجودِ کائنات پر اعتماد ۔۔ کہاں نظام ِ ماسواء کا یقین اور کہاں’ماڈرن ورلڈ‘ کے سائنس دانوں کا اعتقاد ۔۔۔کہاں رب کی ربوبیت اور تصوف کی باتیں اور کہاں عریانیت سے بھرپور’پلے کارڈز‘کی افتاد۔۔۔اسلاف کے وجود کے انکاری ۔۔۔خود اپنے وجودکے پجاری ۔۔۔ دلیل کے نام پر دعوے ۔۔۔ ہر دعوے کے اوپر دلائل ۔۔۔ پھر بھی رب کے
بنائے ہوئے نظام سے انکارکے قائل ۔۔ جونظام کائنات اور اپنے ’جسم پر اپنی مرضی ‘کا دھوکہ کھاتے رہے ۔۔ اور اپنے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لئے ۔۔ عورت مارچ ۔۔ عورت مارچ ۔۔ کا نعرہ لگاتے رہے ۔۔ ۔جو مالکِ کون و مکاں کے نشان اور زیورِوجہء کائنات کو ’کارپوریٹ کلچر ‘ کی آڑ میں ڈھیر کرنے میں سر بکفن رہے ۔۔ جوبیہودہ نعروں اور سلوگنز کے ذریعے ضابطہ حیات کو ’زیر‘ کرنے کی لگن میں مگن رہے ۔۔ انہیںیا ان کی ثقافت کو کسی کے جنبش ابرو یا نوکِ قلم نے نہیں ۔۔انہیں کسی کے غزوے یا کسی کی جنگ نے نہیں ۔۔ ۔ انہیں اپنے ہونے کی خوشی یا کسی کے نہ ہونے کے غم نے نہیں ۔۔۔ انہیں جنات یا خلائی مخلوق کے سائے نے نہیں۔۔انہیں خدا کے ہونے یا نہ ہونے کی رائے نے نہیں ۔۔۔ انہیں تسخیر کائنات کےرازوں سے جڑی سائنس نے نہیں ۔۔ ۔ بس ۔۔۔لبرل سوچ اور خوش فہمی میں’حرمت وعصمت ‘ کا پیکر یعنی اپنی عورتوں کو بیچ چوراہے میں ’ننگے نعروں سے سجے پلے کارڈ ‘ہاتھوں میں اٹھاکر لا کھڑا کرنے کی روایت نے آسمان سے زمین کے اندر دے مارا ہے ۔۔زمین کے اندر سے دفن ثقافت اور اسلاف کی روایت چیخ چیخ کر بین کر رہی ہے کہ ہے کوئی
فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار جولاالہ ال اللہ کے نام پر وجود میں آنے والی اسلامی جمہوریہ پاکستان ، اور حالیہ حکمرانوں کیممکنہ ریاست مدینہ میں این جی اوز ، لبرل ازم اور انسانی حقوق کے نام پر بکتی بنت حوا کی رداوں کو پامالی سے بچائے ۔ہے کوئی مائی کا لال جو کارپوریٹ ورلڈ میں مغربی تسلط کے عتاب میں ناچتی ، ماڈرن آنٹیوں کے نرغے میں گھری عورت کو بکاو مال بننے سے بچائے ۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ عورت کی حرمت کے داعی اور انسانی حقوق کی علمبردار این جی اوز تک کی آنکھیں اس وقت پتھرا جاتی ہیں جب عزت وتکریم کے لائق پاکیزگی کا مجسم یعنی صنف نازک کے خدوخال اور اس کے استعمال کے ذریعے کارپوریٹ دنیا میں مصنوعات بیچنے کی آڑ میں عجیب ہیجان بپا کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں برہنہ نعروں سے مزین پلے کارڈز تھما کر مخصوص مغربی ایجنڈا پروموٹ کیا جاتا ہے ۔۔پتھروں کے دور سے 2019تک کے سفر میں تو صدیاں بیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں لیکن اپنے اسلاف کی اقدار سے روگردانی کے سفر میں ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں ۔فرق یہ ہے کہ پتھروں کے دور میں عورت کو لونڈی بنا کر سربازار نیلامی
کےلئے لاکھڑا کیا جاتا تھا ، آوازیں کسی جاتی تھیں ، بولی لگائی جاتی تھی ، دام بڑھائے جاتے تھے ،بھیڑ بکری کی طرح کسی کی بہن یا بیٹی کو ہانک دیا جاتا تھا ۔عزت وتکریم نام کی کوئی شے نہیں تھی ، بچیاں پید ا ہوتے ہی زندہ درگور کر دی جاتی تھیں، ان کے کوئی حقوق تک نہ تھے ، عورتکی تعلیم کا کوئی رواج نہیں تھا ، بچیوں کو سربازار نیلام کر دیا جاتا تھا ۔۔ پھر یکایک کایا پلٹی ۔ظہور اسلام کے بعد ہمارے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دین اسلام کی صورت میں زندگی گزارنے کا ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ، عورت کو جتنی عزت۔۔ دین اسلام نے دی اس کی مثال کسی مذہب یا ثقافت میں نہیں ملتی ۔ عورت کو بطور جزو کائنات خود رب ذوالجلال نے اتنی اہمیت دی کہ سورہ النساء کا نزول ہوا ۔یہی نہیں بلکہ قرآن پاک میں اللہ تعالی بنی نوع انسان کے وجود کی قسمیں کھاتے ہوئے خواتین کو عزت و تکریم کا منبع قرار دیتا ہے، قرآن پاک کی سورہ النور میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ’ اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ ان کی آنکھوں میں حیا ہو اور اپنی شرم گاہوں کی پردہ پوشی کریں اور اپنا بناو سنگھار ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر
اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘۔ ( سورہ النور)اب معاملہ یوں ہے کہ8مارچ ۔۔ دنیا بھر میں یوم خواتین کے طور پر منایا گیا ۔پوری دنیا کی خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں نے بھی رب کائنات کی حسین ترین تخلیق یعنی عورت کو ماں ، بہن ، بیٹی ، بہو ، بیوی اور دوست کے روپ میں خراج عقیدت پیش کیا ۔پورا دن خواتین کے حق میں قومی ، بین الاقوامی اور سوشل میڈیا پر تعریفی کلمات اور مبارکبادوں کا سلسلہ چلتا رہا ۔ یکایک مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پرعجیب ہیجان بپا ہوتا ہے ۔ آن کی آن میں ہزار دو ہزار پڑھی لکھی ماڈرن خواتین کا ایک جتھہ ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے سڑکوں پر نکل آتا ہے ۔یہ وہی طبقہ ہے جس نے گزشتہ سال ۔۔ میرا جسم ۔۔ میری مرضی ۔۔ کے عنوان سے ایک ہیجان انگیز مہم چلائی تھی ۔ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں ، خواتین کے لئے برابری کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں ، تقریریں اور خطابات کا سلسلہ چل نکلتا ہے ۔اورمزے کی بات یہ کہ بین لاقوامی میڈیا اس ایونٹ کو خصوصی طور پربراہ راست کوریج دیتا ہے۔ اس ساری مہم جوئی میں سب سے اہم وہ پلے کارڈز یا بینرز ہیں جن کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل ہو ہی نہیں سکتی ۔۔پڑھی
لکھی خواتین کے ہاتھوں میں موجودپلے کارڈز پر لکھے نعروں کا متن کچھ یوں تھا ۔۔1۔نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں ۔۔ 2۔ عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے ۔۔ 3۔ کھانا گرم کردوں گی بستر خود گرم کر لو ، 4۔ میں لولی پاپ نہیں عورت ہوں ، 5۔ میں آوارہ میں بدچلن ، 6 ۔ dick picsاپنے پاس رکھو ، 7۔divorce and Happy وغیرہ اور کچھ نعرے تو ایسے ہیں جس کا یہاں پر تذکرہ تک نہیں کیا جاسکتا ۔یہ خواتین کا وہ جتھہ تھا جن میں سے اکثریت یا تو اپنے گھروں سے فارغ ہیں ، یا جنہیں زندگی کی دوڑ میں کسی کا محتاج نہ رہتے ہوئے پیشہ ورانہ طور پر آگے بڑھنا ہے یا پھر وہ جنہیں خدا کے بنائے ہوئے جنسی اور جوڑوں کے نظام سے ماورا زندگی اپنے طریقے سے گزارنی ہے۔ خواتین وحضرات، ہمارے ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہے ۔ اس آبادی کا قریب قریب پچاس فیصد خواتین ہیں ۔ اور ہماری آبادی کے پچاس فیصد طبقے یعنی خواتین کی اکثریت نےماڈرن آنٹیوں اور این جی اوز کے ایجنڈے پر گامزن ۔۔ عورت مارچ ۔۔ کے شرکاء کی اس حرکت پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے ۔ عورت مارچ کے نعروں اور پلے کارڈز سے نفرت کا اظہار کرنے والی یہ خواتین محض
گھریلو خواتین نہیں بلکہ دفاتر میں بڑی پوزیشنز پر پیشہ ورانہ ذمہ دارایاں نبھا رہی ہیں ۔ نجی چینل کی اینکر مدیحہ مسعود پاکستان کی مایہ ناز اینکر ہیں ، لکھتی ہیں کہ برابریکے حقوق کے مطالبے سے کون انکاری ہے ، لیکن پلے کارڈز مہم میں مغلظات کا استعمال اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے خلاف طبل جنگ اورخاندانی نظام کو تباہ کرنے کی سازش ہے، ایک اور معروف اینکر انعم افضل اسے مغرب کا پروپیگنڈا قراردیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ یقین نہیں آرہا کہ یہ عورتیں کس طرح کا مارچ کر رہی ہیں ۔ مایہ ناز رپورٹر جویریہ صدیق لکھتی ہیں ، حقوق نسواں کا معاملہ تو ان پلے کارڈز میں کہیں نظر ہی نہیںآتا ، یہاں تو صرف نفرت ہی نفرت ہے ۔ یہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے طبقے کے تاثرات ہیں جبکہ گھریلو خواتین نے اس مارچ کےمضمرات اور نفرت انگیز نعروں کو یکسر مسترد کردیا ہے ۔ جہاں تک حقوق کا تعلق ہے تو یارکھیں کہ پیشہ ورانہ طور پر ہماری خواتین کسی سے کم نہیں ، سابق وزیر اعظم سے لے کر ، اسپیکر قومی اسمبلی تک اور ویمن کرکٹ اسٹارز سے لے کر فائٹر پائلٹ تک اسی خاندانی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ ناچیز بطور صحافی گزشتہ تیرہ سال سے
رپورٹنگ اور اینکرنگ کر رہا ہےلیکن خاندانی نظام کے خلاف جو نفرت ناچیز نے گزشتہ دوسال میں دیکھی ہے ،پہلے دیکھنے کو نہیں ملی ۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ بہت اچھا نہیں ہوا ۔ انہیں استحصال کا سامنا ہے ۔ ان کے حقوق پامال ہورہے ہیں ۔ مرد کامعاشرہ ہے ، عورت پس رہی ہے ۔ مانا کہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا بہت ضروری ہے ، اٹھانا بھی چاہیے ، معاشرے یونہی تو بہتری کی جانب جاتے ہیں ۔ لیکن اللہ کے بنائے ہوئے نظام کی نفی کرنا ، طلاق جیسی ناپسندید چیز کو پروموٹ کرنا ۔ قدرتی جوڑوں کے نظام کے خلاف جانا ، ہم جنس پرستی کو پروان چڑھانا ، مخالف جنس کے خلاف نفرت کا پرچار کرنا اور خاندان کے نظام کو تباہ کرنے کی سعی کرنا بالکل ناقابل قبول ہے ۔یہ این جی اوز کا ایجنڈا ہے جو معاشرے کو تباہ کرنے کے درپے ہیں ۔ہمارے حکمران وطن عزیز کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تویہاں کچھ ریاست کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ دیکھیں کہ کون اکثریت کی مرضی کے برعکس کس کا ایجنڈا پرومووٹ کررہا ہے۔ ہم اسلامی معاشرے کی پیداوار ہیں ، ہمارے لئے امہات المومنیں رضوان اللہ علیہم اجمعین اورخواتین اصحاب کرام
کی زندگیاں بطور نمونہ موجود ہیں ۔ ہمیں کسی عورت مارچ سے متاثر ہونے کی ضرورت ہے نہ ہم اس طرح کےنعرے سے متاثر ہونے والے ہیں۔مغرب کے اس ایجنڈے کی ترویج پر حکومت کو گہری نظر رکھنا ہوگی ۔امید ہے بالغ نظر خواتین ، ماڈرن آنٹیوں کے اس ایجنڈے پر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائیں گی۔ہمارا معاشرتی نظام ہمارے دین کی عطا ہے اور اللہ کے فضل سے ہماری خواتین ہمارا فخر ہیں۔ اللہ ہمار ے خاندانی نظام کو سازشی عناصر سے محفوظ رکھے ۔ آمین(تحریر: جمیل فاروقی )