’اب میں پاکستان سے نفرت نہیں کرتا‘ بھارتی شہری کے ایک پیغام نے دھوم مچادی۔۔ جانتے ہیں پاکستانیوں کے حق میں کیا اعلان کر دیا ؟ جانیں
دبئی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں پاکستان کے خلاف کس قدر نفرت پائی جاتی ہے یہ سبھی کو معلوم ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں سبھی ایک جیسے ہیں اور سبھی پاکستان سے نفرت کرتے ہیں، کیونکہ یہ عین فطرت ہے کہ ہر جگہ اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور معاملہ رکھتی ہے ان کی شرح۔ اب اس بھارتی شہری ’مرلی دھرن کیسوراج‘ کی مثال ہی لے لیجیے، جس نے فیس بک پر اس حوالے سے ایسی پوسٹ کی ہے جس کی دونوں طرف کے امن پسند ستائش کر رہے ہیں۔ مرلی دھرن نے اپنی اس پوسٹ میں لکھا ہے کہ ”پاکستان وہ ملک تھا جس سے میں نے ہمیشہ نفرت کی۔ مجھے پاکستانیوں سے، پاکستانی کرکٹ ٹیم سے، جناح سے اور حتیٰ کہ پاکستان کے نام سے ہی نفرت تھی۔ جب شعیب اختر نے ٹنڈولکر کو بولڈ کیا تو میرا خون کھول اٹھا تھا۔ میرے لیے ہر کرکٹ میچ پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں میرا پختہ یقین تھا کہ پاکستانی دہشت گرد ہیں اور پوری دنیا کے مسائل کی جڑ ہیں۔ میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ بھارت پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔
حالانکہ میں تب تک کسی ایک پاکستانی سے بھی نہیں ملا تھا، اس کے باوجو دان کے متعلق میرے یہ جذبات تھے۔“ مرلی دھرن مزید لکھتا ہے کہ ”پھر میں کام کے سلسلے میں دبئی آ گیا جہاں میرا پاکستانیوں کے ساتھ اکثر واسطہ پڑنے لگا۔ شروع میں میں ان سے دور رہتا کیونکہ میرے دل میں ان کے لیے نفرت تھی۔ میں کسی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور سے بھی بات نہیں کرتا تھا۔ جہاں میں کام کرتا تھا وہ دبئی شہر سے بہت دور تھی اور ہر ویک اینڈ پر ٹیکسی پکڑنا ایک دشوار مرحلہ ہوتا تھا، خاص طور پر عید کے موقع پر۔ یہ دبئی میں میری پہلی عید تھی۔ میں اپنی رہائش پر واپس جانے کے لیے نکلا لیکن کئی گھنٹے تک مجھے ٹیکسی نہ ملی۔ پھر میں نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو فون کیا جس کے ساتھ میں اکثر سفر کرتا تھا۔ یہ ایک پاکستانی تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ وہ ایک گھنٹے میں مجھے پک کر لے گا۔ اس پر میں سٹپٹا کر رہ گیا اورواپس آفس میں چلا گیا۔ میرا فون سائلنٹ موڈ پر تھا۔ کام کی وجہ سے مجھے کال آنے کا احساس نہ ہوا۔ دو سے تین گھنٹے گزرنے کے بعد میں نے اسے دوبارہ کال کرنے کا سوچا اور فون نکالا تو اس کی کئی کالز آئی ہوئی تھیں۔ اب مجھے شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ اس کی کالز دیکھ کر میں باہر نکلا اور تیزی سے وہاں پہنچا تو وہ عید کے رش کے باوجود ابھی تک وہاں میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے اس سے معذرت کی تاہم اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ راستے میں وہ اپنے بیوی بچوں کے بارے میں بات کرتا رہا جو کراچی کے قریب ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ بتا رہا تھا کہ عید کے موقع پر وہ انہیں کتنا یاد کر رہا ہے۔ سفر کے اختتام پر میں نے اسے کچھ اضافی رقم دینے کی کوشش کی تواس نے رقم لینے سے انکار کر دیا اور میرے بہت اصرار کے باوجود رقم نہیں لی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی کے ساتھ میرا اتنا قریبی رابطہ ہوا تھا۔ اس کے بعد میرے دل میں پاکستانیوں کے لیے نفرت کے جذبات سرد پڑنا شروع ہو گئے اور میں ان کے قریب ہونے لگا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ احساس گہرا ہوتا چلا گیا کہ پاکستانی بہت اچھے لوگ ہیں اور میں بے کار میں ان کے ساتھ بچپن سے نفرت کرتا آ رہا تھا۔ یہ ویسے بالکل نہیں ہے جیسے کہ ہم انہیں سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد میں ہر ہفتے اسی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرتا اور ہم سیاست اور کھیل سمیت تمام موضوعات پر گفتگو کرتے۔ آج میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں۔ بھارت کا پاکستان کے ساتھ جنگ کرنا اتنا ہی احمقانہ ہے جتنا ایک بھارتی ریاست کا دوسری بھارتی ریاست کے ساتھ جنگ کرنا۔ پاکستانیوں اور بھارتیوں میں جتنی قدریں مشترک ہیں، اس کے برعکس اختلافی چیزیں بہت کم ہیں۔ ہم ایک ہی سرزمین شیئر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ہیں۔ ہم پاکستانی ہوں یا بھارتی، فوجی ہوں یا عام شہری، ہمیں قوم پرستی میں اندھا ہو کر انسانیت کو نہیں ہارنے دینا چاہیے۔جنگ کبھی جیتی نہیں جا سکتی۔ یہ صرف سیاستدانوں کی گیم ہے جو وہ ہمیں بے وقوف بنانے کے لیے کھیلتے ہیں۔ آئیں ہم نفرت سے اوپر اٹھیں اور انسانیت کو سمجھیں۔“