عاطف چوہدری اور عابد باکسر : لڑکی کے چکر میں لاہور کے ایک ٹیوشن سنٹر سے شروع ہونے والی خونی لڑائی نے بعد میں کیا کیا گل کھلائے ؟
عابد باکسر نے 1968ءمیں چکوال کے رہائشی غلام حسین کے گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارغ التحصیل ہے۔ سپورٹس کوٹہ پر اس نے 1988ءمیں بطور اے ایس آئی محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی اور 1990 ءمیں سب انسپکٹر کے عہدے پر پہنچ گیا۔نامور صحافی صابر بخاری اپنی ایک اسپیشل رپورٹ میں
لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ 1998ءمیں ترقی کر کے وہ انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ مضبوط جسامت اور سپورٹس کوٹہ کی بنیاد پر پولیس فورس کو جوائن کرنے پر اسے ”باکسر“ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ لوگ اسے عابد باکسر کے نام سے پکارتے تو وہ ہواوں میں اڑنے لگ جاتا۔ آہستہ آہستہ عابد باکسر محکمہ میں مشہور ہونے لگا اور اس پر کچھ نیا کرنے کی دھن سوار ہونے لگی۔ عابد اعلیٰ شخصیات اور پولیس افسران کا چہیتا بن گیا۔ وہ پولیس مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے جرائم پیشہ عناصر اور شوبز کی شخصیات سے بھی تعلقات استوار ہونے لگے۔اس وقت باکسر رضا بلاک علامہ اقبال ٹاون میں رہتا تھا ۔اس نے گھر کے اوپر رہائش جبکہ نیچے دکانیں بنا رکھی تھیں۔ شہر میں سجنے والی اکثردعوتیں عابد باکسر کے بغیر نا مکمل تصور کی جاتی تھیں۔ عابد کی جرائم کی دنیا میں انٹری کا نقطہ آغازکچھ اس طرح ہے کہ عاطف چودھری ایم ایس ایف کا صدر تھا اور اس نے پورے شہر پر دھاک بٹھا رکھی تھی۔وہ ایم اے او کالج میں زیر تعلیم تھا۔کئی جرائم پیشہ عناصر اسکو بھتہ دیتے تھے۔عاطف نے گینگسٹر کا روپ دھار لیا تھا۔عاطف کے دوست اسد
پرنس کا بھی جرائم کی دنیا میں بڑا نام تھا۔مبینہ طور پرساندہ کے علاقے ریواز گارڈن میں ایک پروفیسرنے لینگوئج سنٹر بنا رکھا تھا ،جہاں پڑھنے کیلئے جانے والی ایک لڑکی اسد پرنس کو پسند آگئی اور وہ اسے تنگ کرنے لگا۔لیہ کے رہائشی اس پروفیسر نے اسد کو لڑکی کو چھیڑنے اور پیچھا کرنے سے منع کیا تو اسد نے ایک دن کالج کے باہرپروفیسر پر فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر ایک لڑکا زخمی جبکہ پروفیسر محفوظ رہا،جس کے بعد فریقین میں صلح کرا دی گئی۔جب عاطف کو معلوم ہوا تو اس نے پروفیسر کو دھمکی دی کہ وہ اسے نہیں چھوڑے گا۔اس وقت کیپٹن (ر)زبیر ایس پی سٹی تھے ،مبینہ طور پرانہوں نے عابد باکسر کو ذمہ داری سونپی کہ عاطف گروپ کا قلع قمع کیا جائے۔جب عاطف اور اسکے ساتھی مسلح ہو کر پیسے لینے کیلئے لینگوئج سنٹر پہنچے توعابد باکسر اور انکی ٹیم پہلے سے موجود تھی ،فائرنگ میں اسد پرنس مارا گیا جبکہ عاطف بھاگ گیا ،جس کے بعد ڈیوٹی فری شاپ پنجاب اسمبلی کی بیک پر جب عابد باکسر گاڑی پر جا رہا تھا عاطف نے حملہ کردیا ،عابد بچ گیا۔اس وقت رانا منیر ایس ایچ قلعہ گجر سنگھ تھے،جو بطور کرائم فائٹر مشہور تھے ۔
پروفیسر کو پولیس اہلکار کی سکیورٹی دی گئی ۔ایک دن عاطف نے پروفیسر کے سنٹر پر حملہ کرکے پولیس اہلکار کو شہید کردیاجبکہ پروفیسرچند سیکنڈز کے فرق سے محفوظ رہا۔بعد میں اسی سنٹر پر ہی ایس ایچ او ساندہ رانا منیر نے عاطف کو پولیس مقابلے میں مار ڈالا۔اسد کو مارنے کے بعد باکسرکانیا دور شروع ہوا۔اس وقت نوید سعید ،عاشق مارتھ ،کرامت ملک ،رانا منیر ،شریف بھٹی اور عمر ورک بھی کرائم فائٹر پولیس افسر مشہورتھے مگر زیادہ شہرت عابد باکسر کواسکے ”کارناموں“کی وجہ سے ملی۔جب عابد باکسر کی بہادری اور کاؤنٹر سپیشلسٹ کے چرچے عام ہونے لگے تو شوبز کی شخصیات بھی ان پر لٹو ہونے لگیں۔ باکسر کی ”اندھی“ بہادری سے سیاستدان بھی فائدہ اٹھانے لگے اور بقول عابد باکسر سیاسی شخصیات اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کیلئے اس کے ذریعے جعلی مقابلے کرانے لگیں۔ ذرائع کے مطابق عابد باکسر نے 70 سے زیادہ جعلی مقابلوں میں75سے زیادہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ سیاستدانوں، جرائم کی دنیا کے ڈان اور طاقتور طبقات کی آشیر باد سے عابد باکسر ایک ”چھلاوا“بن گیا۔ اسی دوران اس کا معاشقہ نامور اداکارہ نرگس کیساتھ
چلنے لگا۔ نرگس کو اپنی سکیورٹی کیلئے باکسر کی ضرورت تھی چونکہ وہ اپنے شوہر افضل بٹ سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔دوسری طرف عابد باکسر نرگس کی زلفوں کا پوری طرح اسیر ہو گیا تھا ۔نرگس اس وقت سبزہ زار اور جوہر ٹاون میں رہائش پذیر تھی جہاں عابد باکسر کا اکثر آنا جانا تھا۔۔ اس نے نرگس کو کسی بھی دوسرے شخص سے تعلقات رکھنے پر سختی سے منع کر دیا ۔ مگر چھوٹتی نہیں منہ کولگی، مبینہ طور پرنرگس نے عابد کو دھوکہ دے کر چوری چھپے زبیر بٹ سے تعلقات استوار کر لیے ۔زبیر بٹ فلمساز اور کینیڈا سے یہاں فلم بنانے کیلئے آیا ہوا تھا جس کو نرگس نے اپنے جال میں پھنسا لیا۔نرگس کے گھر سے کسی نے عابد کو خط لکھا اور نرگس اور زبیر بٹ کے تعلقات کا بھانڈہ پھوڑ دیا ۔جس پر عابد باکسر طیش میں آگیا،اس نے نرگس کے گھر جا کر اس کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے سر اور بھنوئیں کے کچھ بال بھی کاٹ دیے، جس کی وجہ سے نرگس کافی عرصہ شوبز سے آؤٹ بھی رہی۔اس کے بعد نرگس اور عابد کے تعلقات ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئے۔۔ اس واقعہ کا مقدمہ عابد باکسر اور ساتھیوں کیخلاف فیصل ٹاؤن تھانے میں درج ہوا۔عابدنے نہ صرف شوبز انڈسٹری بلکہ جرائم پیشہ عناصر پر بھی اپنی دھاک بٹھا دی۔ عابد باکسر طاقتور شخصیات کی پشت پناہی کی بدولت جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا تھا۔باکسر کے لاہور کے نامی
گرامی جرائم پیشہ اور قبضہ گروپس جن میں گوگی بٹ، طیفی بٹ، ملک احسان وغیرہ شامل تھے کے ساتھ تعلقات استوار ہو چکے تھے، جن کی مدد سے باکسر قیمتی زمینوں پر قبضہ کرنے لگا تھا۔مبینہ طور پراس کے ٹیپو ٹرکاں والے کیساتھ بھی ابتدا میں کچھ عرصہ اچھے تعلقات رہے مگر زیادہ تر یہ ٹیپو کا مخالف رہا اور ایوان عدل میں ٹیپو اور اسکے ساتھیوں پران کے بندوں نے حملہ کیاجس میں ٹیپو کے پانچ ساتھی مارے گئے جبکہ ٹیپو زخمی ہوگیا تھا۔ باکسرکیخلاف فیصل ٹاؤن میں بھی ایک اور مقدمہ درج ہوا جس میں ناجائز اسلحہ رکھنے کی دفعات شامل تھیں۔ عابد باکسر کیخلاف تھانہ گلبرگ، تھانہ شمالی چھاونی، تھانہ قلعہ گجر سنگھ وغیرہ میں متعدد مقدمات درج کیے گئے۔ ان مقدمات میں قتل، اغوائ، ڈکیتی اور فراڈ وغیرہ کی دفعات شامل تھیں۔ عابد باکسر کے خلاف آخری مقدمہ 2017 میں تھانہ ملت پارک میں درج کیا گیا۔ اس مقدمہ میں عابد باکسر اور ساتھیوں پر ایک کیبل آپریٹر کے بیٹے کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ تو چند مقدمات کی جھلک ہے، در حقیقت عابد باکسر کا خوف اس قدر تھا کہ اکثر لوگ اس کے خلاف مقدمات کا اندراج ہی نہیں کراتے تھے۔عابد باکسر گروپ
نے قبضہ مافیا کے ساتھ مل کر اربوں روپے کمائے۔ اس گروپ نے دوبئی سنگاپور، تھائی لینڈ سمیت کئی ممالک میں اپنا نیٹ ورک قائم کر لیا اور جرائم کی دنیا سے حاصل ہونے والا پیسہ باہر بھیجا جانے لگا۔ مبینہ طور پر عابد باکسر نے 2007ءمیں وطن چھوڑ دیا، چونکہ اب اس پر زمین تنگ ہونے لگی تھی مگر اس کے بعد بھی اُس کی کارروائیاں جاری رہیں۔ لاہور میں موجود سیٹ اپ اسکے اشارے پر یہ کام سر انجام دیتا تھا۔ عابد باکسر کی زندگی میں بریگیڈیئر(ر) محمود شریف کی بیوہ نسیم شریف کو قتل کرنے کا واقعہ ایک تلخ حقیقت ثابت ہوا۔مبینہ طور پر بریگیڈیئر (ر) شریف کی رحلت کے بعد اسکی بیوہ نسیم شریف نے اس سینما کا چارج سنبھال لیا۔اس کے بعد اس سینما کا ٹھیکہ ایک شخص(ج ،ا)کو دے دیا گیا مگر عابد باکسر کے ماموں ظفر عباس نے سینما پر قبضہ کر لیا۔سینما پر قبضہ کی جنگ جاری رہی اور طیفی بٹ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سینما پر دھاوا بول دیا۔باکسر اور اسکے ماموں کے درمیان بھی تعلقات خراب رہے ،عابد نے ماموں کیخلاف اخبار میں لاتعلقی کا اشتہار بھی دیا ۔نسیم شریف کے قتل کے بعد باکسر اور اسکے ماموں کیخلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ظفر
عباس پولیس کی گرفت میں آگیا اور پولیس کی حراست میں ہی موت کے منہ میں چلا گیا۔ظفر عباس کے بیٹے ندیم اور علی بھی گرفتار ہوئے اور انہیں موت کی سزا ہوئی مگر ہائیکورٹ نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے انہیں رہا کر دیا ۔اس مقدمہ میں بھی باکسر کو اشتہاری قرار دیا گیا ۔بریگیڈیئر (ر)شریف کی بہو نورین (جو امریکہ میں مقیم ہے)نے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہوا ہے۔اس کے علاوہ مبینہ طور پرقلعہ گجر سنگھ میں عابد باکسر کے خلاف مقدمہ نمبر 658 بھی درج کیا گیا، جس میں باکسر اور ساتھیوں پرایک سینما منیجر کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ جس کی وجہ عدم بھتہ ادائیگی بتایا گیا ہے۔ 2015ءمیں حکومت نے عابد باکسر کے سر کی قیمت 3 لاکھ مقرر کی اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے دور میں عابد باکسر کے ریڈ وارنٹ جاری ہوئے۔ عابد باکسر مزے سے دوبئی، سنگاپور سمیت کئی ممالک سے اپنا نیٹ ورک چلا رہا تھا کہ اس نے ایک ٹی وی پروگرام میں تمام پولیس مقابلوں کا ماسٹر مائنڈ شہباز شریف کو قرار دیا جس میں کچھ حقیقت بھی نظر آتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جس طرح 2017 ءمیں پولیس مقابلوں کا نوٹس لیا ہے، اسی طرح وہ
عابد باکسر کے پولیس مقابلوں کا بھی نوٹس لیں تو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گااور قوی امکان ہے کہ شریف خاندان کے کہیں نہ کہیں جا کر پولیس مقابلوں میں رضامندی کے ثبوت واضح ہو جائیں گے۔ عابد باکسر کے ٹی وی انٹرویو کے بعد حکومت حرکت میں آئی اورسابق انسپکٹر کی گرفتاری کے لئے انٹرپول کو بھی خط لکھ دیا گیا۔ مبینہ طور پر عابد باکسر نے دوبئی سمیت کئی ممالک میں ڈانسز کلب سمیت کئی کاروبار بھی شروع کر رکھے ہیں۔ لاہور کے ایک سینما میں بھی مبینہ طور پر عابد باکسر کی پارٹنرشپ ہے۔ آج کل عابد باکسر لاہور میں قریبی رشتہ دار علی باکسر کے ذریعے اپنا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ علی باکسر 6 سے سات لینڈ کروزرز کے قافلے میں درجنوں مسلح گارڈز کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے۔ مبینہ طور پر ان گروپس کو سیاستدانوں، پولیس افسران سمیت دیگرشعبہ زندگی کے طاقتور طبقات کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان گروپس نے متعدد ماؤں کی گودیں سونی کر دی ہیں۔ یہ مافیاز سیاستدانوں کی انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی معاملات میں مدد کرتے ہیں۔ پولیس ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض سیاستدان ان کے خوف سے بھی ان کی سپورٹ
کرتے ہیں۔ کبھی وہ اقتدار میں رہتے ہیں اور کبھی اپوزیشن میں اس لیے ان مافیاز کی سپورٹ ضروری سمجھی جاتی ہے۔سابق انسپکٹر نے ماورائے عدالت پولیس مقابلوں کا ماسٹر مائنڈ شہباز شریف کو قرار دیا ہے جبکہ اس نے مبینہ طور پر سابق ایس پی سی آئی اے عمر ورک پر بھی الزام لگایا ہے کہ اس نے سبزہ زار میں پانچ لوگوں کو جعلی پولیس مقابلے میں پار کیا ۔ اس حوالے سے عمر ورک نے روزنامہ 92نیوز کو بتایا کہ” ماضی میں دو واقعات ایسے ہوئے جس کی وجہ سے عابد باکسر انکے خلاف ہے ۔عمر ورک کے مطابق وہ ڈی ایس پی کوتوالی تھے جب ایوان عدل کا واقعہ پیش آیا تھا ،اس کیس کی تفتیش انکے پاس آئی اور انہوں نے عابد باکسر کو گرفتار کرکے تفتیش کیلئے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا کہا تو وہ نیچے بیٹھ گیا جس پر انہیں غصہ آیا اور انہوںنے عابد باکسر کو حوالات میں بند کر دیا ۔جبکہ دوسرے واقعہ میں بریگیڈیئر (ر )محمود شریف کی بیوہ نسیم شریف قتل کیس ،جس میں عابد باکسر نے رشتہ داروں کیساتھ ملکر جعل سازی سے اربوں روپے کی پراپرٹی پر قبضہ کیا تھا ،اس کیس
کی تفتیشی ٹیم میرے انڈر تھی جس نے عابد باکسر کے ماموں اور ایک رشتہ دار کو گرفتار کر لیا جبکہ باکسر روپوش ہوگیا تھا ۔جس کے بعد عابدباکسر میرا مخالف بن گیا اور اسکے میرے خلاف بیانات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔اسکے سسر وکیل اور انکا تعلق اچھے خاندان سے ہے ۔وہ باکسر تھا اورجن لوگوں کو ایسے نام مل جائیں وہ کچھ منفرد کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اسی زعم نے عابد کے دماغ کو بھی خراب کردیا ۔اسکے علاوہ فلمی خواتین اور جرائم پیشہ عناصر سے روابط نے عابد باکسر کو جرائم کی دنیا میں دھکیل دیا “۔لاہور کے ان طاقتور گروپوں سے قبضہ کروانا ،چھڑوانااور کسی کی سپاری لیکر اس دنیا سے کوچ کرنا سمیت ہر طرح کے کام لیے جا سکتے ہیں۔جن مافیا ز سے سیاستدان ،حکمران ،پولیس سمیت دوسرے ادارے خوفزدہ ہوں وہاں عام آدمی کیسے انکے مقابلے پر کھڑا ہو سکتا ہے؟ایسے مافیا ز کو ختم کرنے کیلئے تمام اداروں کو ایک ایجنڈے پر آکر پوری طاقت سے کچلنا ہوگا۔ایڈیشنل آئی جی چودھری عبدالرب اورایس ایس پی رانا ایاز سلیم کے مطابق پولیس سسٹم تبدیل ہوچکا ہے اور عابد باکسر جیسے کردار اب محکمہ پولیس میں موجود نہیں ہیں۔پولیس
انفارمر کے سر پر کام کرتی ہے ،بعض اوقات ہر قسم کے لوگوں سے تعلق رکھنا پولیس کی مجبوری بن جاتی ہے مگر اس کا غلط استعمال کسی طور پر قابل قبول نہیں ۔ڈی آئی جی آپریشنز حیدر اشرف کے مطابق لاہور میں چھوٹے موٹے قبضہ گروپس تو موجودہیں مگر انڈر ورلڈ کا یہاں وجود نہیں۔عابد باکسر کے حوالے سے آفیشلی کسی نے آگاہ نہیں کیا ۔