اسلام میں مرد کو ایک سے زائد شادی کی اجازت کیوں ہے؟
کئی معاشرتی اور سماجی حکمتوں کے پیش نظر اسلام نے مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کا حق دیا، مگر اسے بیویوں کے درمیان عدل و انصاف سے مشروط کر دیا اور اس صورت میں جب مرد ایک سے زائد بیویوں میں عدل قائم نہ رکھ سکے تو انھیں ایک ہی نکاح کرنے کی تلقین کی۔ارشاد باری تعالی ہے”اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے
زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔” النساء گویا ایک سے زیادہ شادیاں کوئی اْصول نہیں ہے بلکہ ایک استثنائی صورتحال ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم دیتا ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسلام میں اعمال کے پانچ درجے یا اقسام ہیں ۔
1۔ فرض: یعنی وہ کام جن کا کرنا ضروری اور لازمی ہے۔
2۔ مستحب: وہ کام جو فرض تو نہیں لیکن ان کے کرنے کی تاکید یا حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
3۔ مباح: وہ کام جن کی نہ حوصلہ افزائی کی گئی اور نہ روکا گیا ہے۔
4۔ مکروہ: کراہت والے ناپسندیدہ اْمور۔
5۔ حرام: وہ کام جن سے قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے۔
ایک سے زیادہ شادیوں کا معاملہ تیسرے یا درمیان والے درجے میں آتا ہے۔ یعنی وہ کام جن کے کرنے کی نہ تو قرآن و سنت میں تاکید کی گئی ہے اور نہ ہی منع کیا گیا ہے۔ پورے قرآن میں اور اسی طرح احادیث میں بھی وہ ہمیں کوئی ایسا بیان نہیں ملتا جس میں کہا گیا ہو کہ جو مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو ایک ہی شادی کرتا ہے۔آئیے تجزیہ کرتے ہیں کہ اسلام مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟قدرتی طور پر مرد اور عورتیں تقریباً مساوی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جدید علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ بچیوں میں قوت مدافعت بچوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی جراثیم اور بیماریوں کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکتی ہے بہ نسبت ایک بچے کے۔ صحت کے لحاظ سے عورت مرد کے مقابلے میں بہر صنف ہے۔ لہذا ہوتا یہ ہے کہ شیر خوارگی کی سطح پر ہی بچیوں کی تعداد بچوں سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ دورانِ جنگ مردوں کی اموات عورتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ حالیہ دور میں ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں ایک طویل جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے دوران تقریباً پندرہ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان مرنے والوں میں غالب اکثریت مردوں کی تھی۔
شہداء کی کثیر تعداد مردوں پر ہی مشتمل تھی۔اس طرح اگر آپ حادثات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی اکثریت بھی مردوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ منشیات کے استعمال سے ہونے والی اموات میں بھی غالب اکثریت مردوں ہی کی ہوتی ہے۔مندرجہ بالا تمام عوامل و اسباب کے نتیجے میں دنیا میں مردوں کی آبادی عورتوں کے مقابلے میں کم ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے چند ایک ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں ہی عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے۔ جن ممالک میں عورتوں کی آبادی کم ہے ان میں سے ایک اہم ملک ہندوستان ہے۔ اور ہندوستان میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلے میں کم ہونے کا بنیادی سبب ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ یہاں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ اسقاطِ حمل کیے جاتے ہیں اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ پیدا ہونے والی بچی ہو گی اسقاط کرواد دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح بچیوں کو قتل کیے جانے کی وجہ سے ہی مردوں کی آبادی زیادہ ہے باقی پوری دنیا میں اس کے برعکس صورتحال ہے۔اسلام کی آمد عورت کیلیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام بنی۔ اسلام نے
ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ پیارے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے 51 برس کی عمر تک حضرت خدیجہؓ کے سوا کسی خاتون سے نکاح نہ کیا۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ نے باقی شادیاں بیواؤں اور یتیموں کو سہارا دینے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصلحت سے کیں۔ آپ ﷺ کی واحد کنواری بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جن سے آپ ﷺ نے اللہ کے حکم پر شادی کی (بخاری، 5078)۔ اس شادی کی حکمت یہ تھی کہ سیدہ ایک غیر معمولی ذہین ٹین ایجر خاتون تھیں۔ اللہ کی مرضی یہ تھی کہ وہ ایک دہائی تک رسالت مآب ﷺ کی مبارک سنگت و صحبت میں رہ کر دین سیکھتی رہیں اور اپنی کم عمری کی بنا پر حضور ﷺ کے وصال مبارک کے بعد بھی امت مسلمہ کو دین کا پیغام و تعلیمات پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتی رہیں۔۔ایک سے زائد شادیوں کا قرآنی فرمان حکم نہیں بلکہ اجازت ہے جو بعض حالات میں ناگزیر ہو جاتی ہیں جنگ، حادثات، طبعی حالات بعض اوقات ایسی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں کہ
معاشرے میں اگر ایک سے زائد شادیوں پر پابندی عائد ہو تو وہ سنگین سماجی مشکلات کا شکار ہو جائے جس کے اکثر نظائر ان معاشروں میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں ایک سے زائد شادیوں پر قانونی پابندی ہے تاہم یہ اسلام کا تصور عدل ہے کہ وہ معاشرہ جہاں ظہور اسلام سے قبل دس دس شادیاں کرنے کا رواج تھا اور ہر طرح کی جنسی بے اعتدالی عام تھی اسلام نے اسے حرام ٹھہرایا اور شادیوں کو صرف چار تک محدود کرکے عورت کے تقدس اور سماجی حقوق کو تحفظ عطا کر دیا۔یاد رہے کہ اسلام کا رحجان یک زوجگی کی طرف ہے ۔ناگزیر حالات میں جہاں اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے اسے عدل و مساوات سے مشروط ٹھہرایا ہے کہ مرد ان تمام معاملات میں جو اس کے بس میں ہیں مثلاً غذا، لباس، مکان، شب باشی، اور حسن معاشرت میں سب کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک کرے۔۔۔۔ جو شخص دو بیویوں کے درمیان عدل و انصاف نہیں کرے گا وہ قیامت کے روز فالج زدہ اٹھایا جائے گا۔۔۔ یعنی دوسری شادی سے پہلے ہزار بار سوچنا ضروری ہے کہ کہیں آخرت تباہ نہ ہو جائے، یہ کوئی شغل یا مذاق نہیں، شادی سے پہلے حقوق زوجین کا شعور و
ادراک ہونا بھی نہایت ضروری ہے اگر کسی کو بیوی کے حقوق کا شعور نہیں تو وہ حقوق کیسے ادا کرے گا اور انصاف کیسے کرے گا؟؟ یہاں تو ایسے لوگوں کی بھی کثیر تعداد ہے جو عمر بھر حق مہر بھی ادا نہیں کرتے۔۔۔ یہ مردوں کا معاشرہ ہے یہاں مردوں کی اکثریت بیوی پہ ظلم کرتی ہے اس کے بہت سے اسلام کے عطا کردہ حقوق ادا نہیں کیے جاتے۔۔۔ بعض بدبخت تو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی گھریلو معاملے میں بھی مشاورت تک نہیں کرتے۔صرف اہل استطاعت افراد کو دوسری شادی کی عدل و انصاف کی کڑی شرط کے ساتھ اجازت ہے۔ اگر کوئی شخص برسر روزگار نہیں ہے، اپنی ایک زوجہ کے نان و نفقہ کے بنیادی حقوق پورے کرنے کا بھی اہل نہیں اور اپنے بیوی بچوں کو علاج معالجہ، تعلیم و تربیت اور عزت کی روٹی و کپڑا بھی کما کر نہ دے سکے تو اسلام میں اسے پہلی شادی کی بھی اجازت نہیں۔۔۔ اس کیلیے روزے رکھنے کا حکم ہے۔
(بلاگر شاہد حسین کا تعلق سیالکوٹ سے ہے ،سوشل میڈیا پر معلوماتی اور فکری اصلاحیں لکھتے ہیں )