حکومت نے حالات بہتر کرنے کی ذمہ داری پوری نہ کی تو یہ کام کون کریگا۔۔۔۔چیف جسٹس کادبنگ اعلان
لاہور( آن لائن) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اگر حکومت حالات بہتر نہیں کرے گی تو یہ ذمہ داری کوئی اور پورے کرے گا۔ عدلیہ کا ادارہ ناکام رہا تو معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا، ملک میںجس معیار کا انصاف کا ادارہ ہونا چاہیے وہ نہیں ہے،تین بنیادوں پر قومیں ترقی کرتی ہیں ،پہلے تعلیم، دوسرا بہترین لیڈرشپ اور تیسرا انصاف کی فراہمی ہے۔ 2
سالوں میں عوام نے بہت عزت دی۔تفصیلات کے مطابق ہفتہ کے روز چیف جسٹس پاکستان نے لاہور انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدینے کی ریاست میں بہترین انصاف کا نمونہ حضرت عمرؓ کا دور تھا، انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑا کام ہے، ایماندار قیادت ہی ملک کو ترقی کی جانب لے جاسکتی ہے، صورتحال میں بہتری کیلیے کام کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، حکومتیں نہیں کریں گی تو کوئی تو ذمے داری پوری کرے گا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تعلیم کے ذریعے قومیں بنتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ملک میں تعلیم کے شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا، درس گاہوں اور اسکولوں میں وڈیروں کے جانور بندھے ہیں، بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اسکول تک نہیں، میری اپیل ہے تعلیم اور صحت کو پیسا کمانے یا کاروبار کا ذریعہ مت بنائیں۔انہوں نے کہا کہ تعلیم اس کا ایک لازمی جزو ہے، تعلیم کے بغیر سوسائٹی بے کار ہے، پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور یہاں تعلیم کا نظام کوئی خاص اچھا نہیں ہے،ان کا کہنا تھا کہ میں ملک کے ہر حصے میں گیا ہوں، بلوچستان کے کئی علاقوں میں اسکول نہیں ہیں اور اگر اسکول ہیں تو اس کی چار دیواری نہیں ہے اور اس میں واش روم نہیں ہیں۔ ان کا
کہنا تھا کہ آپ جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لیے پسند کریں، ملک کی ترقی کا دوسرا راز بہترین لیڈرشپ ہے اور ترقی کا تیسرا راز انصاف کی فراہمی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اللہ تعالی کی سب سے بڑی عنایت ہے کہ اس دنیا میں زندگی پیدا کر دی ہے، زندگی صرف زندہ رہنے کا نام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جانوروں، چرند پرند اور نباتات کے حقوق ہیں جبکہ سب سے زیادہ حقوق اللہ تعالی نے انسان کو دیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر عدلیہ کا ادارہ ناکام رہا تو معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا، جس معیار کا انصاف کا ادارہ ہونا چاہیے وہ موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جب کسی شہری کو بنیادی حقوق نہیں ملتے تو پھر سوسائٹی میں اضطراب پیدا ہوتا ہے، جو کچھ آپ کر رہے ہیں وہ دیانت کے ساتھ کرنا چاہیے، معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا رول ادا کرے، اگر ہر شخص اپنے طور پر رول ادا نہیں کرے گا تو معاشرے کی ترقی نا ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت کو کاروبار مت بنائیں اور اپنی وفاداری، اپنا علم اور وقت اس ملک کو دیجیے، یہ واقعی ہی بڑے حوصلے کی بات ہے کہ لوگوں پر خرچ کیا جائے۔ میں نے زندگی میں کبھی فرسٹ پوزیشن
نہیں لی اور 2 سالوں میں عوام نے بہت عزت دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے ان ایشوز کو ٹیک آپ کیا جو ضروری تھے، لاہور کا سارا فضلہ راوی میں ڈالا جا رہا ہے، اس ملک کو کسی کمزور بندے نے نقصان نہیں پہنچایا اور پاکستان کو اس مقام پر لانے والے یہ بڑے لوگ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری ڈیوٹی ہے کہ ایک لاکھ 21 ہزار روپے کے مقروض بچے کے لیے کچھ کر کے جائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘حقوق کی آزادی کے بغیر زندگی کچھ نہیں، ہماری زندگی کا اصل اور حقیقی مقصد مخلوق خدا کی خدمت ہونا چاہیے اور ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ باعزت قومیں اور معاشرے کس طرح تشکیل پاتی ہیں۔