’’زینب کے قاتل کی قبر میں پہلی رات ‘‘ میری قبر تنگ ہوتی جا رہی تھی اس کی دیواریں ایک دوسرے کی جانب بڑھ رہی تھیں اس بوجھ سے میرے جسم کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا مجھے خیال آیا کہ۔۔!عمران علی کیساتھ قبر میں کیا ہوا ؟
میرا نام عمران ہے میرا جرم زینب اور اس جیسی کئی معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زيادتی اور قتل ہے اور میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے اس ظلم کی تربیت میری ماں کی کوکھ سے نہیں ملی ۔زینب کے خون ناحق کے بعد جب میں قانون کے گھیرے میں آیا اور پھانسی کے پھندے تک پہنچا اس کے بعد میرے بے جان لاشہ کو میرے وارثین نے وصول کر کے شرمندگی کے احساسات کے ساتھ وصول کیا میرے آخری دیدار کرنے والے لوگوں میں میری ماں کے علاوہ اور کوئي نہ تھا جس کے دل میں میرے لیۓ تاسف اور جس کی آنکھوں میں میرے لیۓ آنسو ہوں مگر میری ماں اب بھی مجھ جیسے حیوان کے لیۓ آنسو بہا رہی تھی جب مجھے
منوں مٹی کے حوالے کر کے قبر کے اندھیروں میں سب چھوڑ کر چلے گۓ تو میں نے سب کو بہت پکارا کہ مجھے یوں تنہا چ یھوڑ کر مت جاؤ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ اللہ تعالی میرے گناہوں کی سزا بہت سخت دیں گے میرے گناہ بھی تو ایسے ہی ہیں جن کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیۓ مگر میری آواز صرف مجھے ہی سنائی دے رہی تھی بالکل اسی طرح جیسے زینب اور اس جیسی بچیوں کی آوازیں ،ان کا رونا ان کا چیخنا چلانا سننے والا کوئي بھی نہ تھا میں ان بچیوں پر ظلم کرتے ہوۓ یہ بھول گيا تھا کہ ایک دن مجھے بھی اسی بے بسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے میری قبر تنگ ہوتی جا رہی تھی اس کی دیواریں ایک دوسرے کی جانب بڑھ رہی تھیں اس بوجھ سے میرے جسم کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا مجھے خیال آیا کہ ان بچیوں کو بھی تو ایسی ہی اذیت اس وقت ہوئي ہو گی جب میں ان بچیوں کے اوپر چڑھ کر ان کے ساتھ زيادتی کر رہا تھا کتنا درد ہوا ہو گا ان کو اس وقت مجھے اب اس درد کا احساس ہو رہا تھا اچانک اس قبر میں سے بہت سارے سانپ اور بچھو نہ جانے کہاں سے آگۓ تھے اور انہوں نے میرے جسم کے نازک حصوں پر کاٹنا شروع کر دیا میں نے ایک بار پھر چلانے کی کوشش کی مگر ایک بچھو میرے منہ میں داخل ہو گیا تو مجھے خیال آیا کہ جب زینب چلانے لگی تھی تو میں نے اس کا منہ بھی اسی طرح ایک کپڑا گھسیڑ کر بند کر دیا تھا اچانک قبر کی دیواروں گرم ہونے لگیں ان کی گرمی میرے کفن کو جلا رہی تھی اور یہ حدت میرے جسم تک بھی پہنچ رہی تھی مگر میں قبر کی تنگی کے باعث ہلنے سے بھی عاجز تھا اس آگ کی جلن وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی میرا دم گھٹ رہا تھا مگر اس اذیت میں کمی واقع نہیں ہو رہی تھی بلکہ یہ بڑھتی جا رہی تھی ایک ایک بچی کا چہرہ میرا سامنے آرہا تھا جن کے ساتھ اس دنیا میں میں نے جبرا زيادتی کی تھی ان کے آنسو جیسے جیسے میرے جسم پر گر رہے تھے اس آگ کی حدت بھی بڑھتی جا رہی تھی میں چیخنا چاہتا تھا چلانا چاہتا تھا مگر کچھ نہیں کر سکتا تھا مجھے اپنی ماں کا خیال آيا اس کی بوڑھی آنکھیں یاد آئیں اس کی نصیحتیں یاد آئیں جو میں اپنی طاقت کے زعم میں مزاق میں اڑا دیا کرتا تھا میں چاہتا تھا کہ اپنی ماں کی آغوش میں چھپ جاؤں مگر یہ اب ممکن نہ تھا میری ماں کی بانہیں مجھے آغوش میں لینے کے لیۓ اب بھی کھلی تھیں مگر میں اب ان میں نہیں جا سکتا تھا میرے نصیب میں یہ سزائیں تا قیامت تک لکھ دی گئی تھیں کاش میں دنیا میں رہتے ہوۓ اس بات کا سمجھ سکتا کہ ایک دن مجھے ان تمام ظلموں کا حساب دینا پڑے گا تو شاید ایسا نہ کرتا.