داتا صاحب کے مزار پر چڑھائی جانیوالی چادریں کہاں جاتی ہیں ؟ خاتون کالم نگارنے ایسی باتیں بتادیں جوصرف اندرکے لوگ ہی جانتے ہیں
میں جن دنوں داتا صاحب کی جہیز کمیٹی کی رکن تھی، اس زمانے میں بہت سے بھید کھلے تھے۔ داتا صاحب پہ جو چادریں چڑھائی جاتی تھیں۔ ان میں سے بہت سی چادریں واپس دکان پر آکر دوبارہ فروخت کر دی جاتی تھیں بالکل اسی طرح جیسے کہ ہم لوگوں نے اجمیر شریف میں بھی دیکھا تھا۔نامور خاتون کالم نگار کشور ناہید اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ خیر پھر
بھی اتنی چادریں، ہر دو مہینے بعد بچ جاتی تھیں کہ خواتین کا ایک گروپ ان کے جہیز کے جوڑے بنا کر غریب خاندانوں میں تقسیم کیا کرتا تھا۔ اسی زمانے میں داتا صاحب پہ چڑھاواچڑھنے والی دیگوں کا حساب کیا تو یہ راز کھلا کہ لوگ آکر دیگ کے پیسے دیتے اور دیگوں والے اوندھا پیالہ رکھ کر، ایک دیگ کی دو دیگیں بنا کر، صدقات والوں کی تسلی کر دیا کرتے تھے۔ یہ ایک روز کا کام نہیں تھا صدیوں سے اسی طرح ہوتا آیا ہے۔ رہا داتا صاحب کے صندوقچے میں صدقات کی رقم جمع ہونے کا سوال،تو مجھے چونکہ اس زمانے میں بحیثیت سرکاری ملازم، اس بات کا بھی اندازہ اور مشاہدہ تھا کہ ایک روز میں لاکھوں کی رقم جمع ہو جاتی ہے۔ کئی لوگ تو بلینک چیک بھی جمع کروا دیتے تھے کہ جو چاہو رقم میری طرف سے بھر لو، یہ تذکرہ ہے آج سے 50 برس پہلے کا۔ اب جو چیف جسٹس صاحب نے منتظمین سےاستفسار کیا تو مجھے یاد آیا کہ ان دنوں میں، میں کہا کرتی تھی کہ ماشا اللہ داتا صاحب کے طفیل اتنے عطیات جمع ہو جاتے ہیں کہ لاہور شہر کے تمام انتظامات کو چلانے کے لئے یہی رقومات کافی ہوںمگر محکمہ اوقاف اور اس کے کارندے، جس شہر اور
جس مزار پر بھی ہوں،ایک تو روز پلائو کھا کھا کے، ان کے گھر والے تنگ پڑ جاتے ہیں۔ صرف محکمہ اوقاف نہیں اس کی کمیٹیوں کے جتنے اراکین تھے ان کے گھروں پر بھی کبھی زردہ، کبھی قورمہ اور کبھی پلائو، کھانے کا مجھے اتفاق ہوا ہے۔پاکستان میں مزارات کی تعداد گنی نہیں جا سکتی ہے کہ آبادی کی طرح مزاروں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ ہماری خوش اعتمادی ایسی ہے کہ ریس میں گھوڑا جیتنے سے لے کر ہر اس تمنا اور خواہش کے لئے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں جو زندگی میں تو کم از کم پوری ہونے سے رہی۔مزاروں پر فاتحہ کے لئے حاضری دینا تو واجب ہے مگر وہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس کا ہلکا بلکہ خفیف سا بیان، اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے ان پڑھ لوگ اور بے لگام بِلا نوکری کے آوارہ گردی کرتے نوجوان جو وہاں جمع ہوتے، کھانا کھاتے،دھمال ڈالنی ہو تو بھنگ، چرس پی کر دھمال ڈالتے دن رات گزارتے ہیں۔ میں نے سارے ملک کے مزاروں پر غریب عورتوں کو اپنے پلو میں سے مڑا تڑا سو کا نوٹ نکال کر مزار کے جھروکے کے قریب جو شخص بیٹھا ہو،اس کے ہاتھ میں پکڑاتے دیکھا۔اس کے بعد وہ مزارکو بوسہ دے سکتی ہیں بہت کم بلکہ گنے چنے لوگ ہوتےہیں جو ایک طرف بیٹھے قرآن شریف پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ باقی سب کیلئے نہ کوئی باقاعدہ صوفیاء کی تعلیمات دینےکا اہتمام کیا جاتا ہے اور نہ لوگ ہی اس کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ قوالی کا اہتمام ہوتا ہےاور ہمارے سارے بڑے قوال اپنا نذرانہ ہمیشہ پیش کرتے رہے ہیں اور اس کا معاوضہ وصول نہیں کرتے، اسی طرح شاہ لطیف کے مزار پر آج تک ایک دن عابدہ پروین بھی شاہ لطیف کا کلام عاجزانہ طور پر پیش کرتی ہیں۔داتا صاحب اور شاہ لطیف جیسے بزرگوں کے مزارات کو عرس سے ایک دن قبل گلاب کے عرق سے اور ایک دن دودھ سے غسل دیا جاتا ہے۔ دودھ کی اس دھوون کو بطور تبرک جگوں اور لوٹوں میں جمع کرنے کیلئے عورتیں ایک دوسرے کے بال کھینچتی ہیں۔ وہ منظر بھی دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔ ان مزاروں کے باہر گدا گر اور گدا گروں کے روپ میں جیب کاٹنے والوں، بچوں اور لڑکیوں کو اغوا کرنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے، پولیس بھی ان کو نکیل نہیں ڈال سکی ہے۔ بابا فرید کے مزار پر بہشتی دروازہ کھلنے اور اس میں پہلے سو آدمیوں کے داخلے کے متوالے، چھت سے چھلانگیں لگا کر، اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھتے ہیں کہ ان سب کا یقین ہوتا ہے
کہ جو پہلے سو لوگ مزار کے دروازے میں داخل ہو نگےوہ سیدھا جنت میں جائینگے۔اپنے اپنے عقیدوں کا معاملہ ہے۔ یہ معاملہ بھی اتنا نازک ہے کہ کسی بھی عقیدے پر بحث یا بات کرنے کے لئے، کم از کم پاکستان میں بالکل اُس طرح گنجائش نہیں ہے جیسے برادر عرب ملک میں شہنشاہیت کے خلاف۔ ان تمام باتوں کے باوجوداسلامی ملکوں میں سے کسی اور ملک میں پاکستان کی طرح مذہبی دھرنا نہیں دیاجاتا ہے۔ لوگ ٹرمپ کے خلاف پورے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں نکلے تھے۔ مگر نہ تو ٹریفک رکی تھی اور نہ کوئی گملا ٹوٹا تھا۔