چھتیس گڑھ کے انتخابات کے ابتدائی نتائج : مودی کوبڑاجھٹکا لگ گیا
نئی دہلی (ویب ڈیسک )بھارتی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس بی جے پی پی کے اقتدار والی تین شمالی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں دو میں فتح کی طرف گامزن ہے۔تیسری ریاست میں دونوں جماعتوں میں کانٹے کا مقابلہ ہے جبکہ باقی دو ریاستوں میں علاقائی جماعتیں آگے ہیں۔کانگریس کے بارے میں پہلے سے توقع کی جا رہی تھی کہ یہ ریاست
راجستھان میں جیت جائے گی جبکہ ریاست مدھیہ پردیش میں توقع تھی کہ یہاں کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔لیکن ریاست چھتیس گڑھ کے انتخابات کے ابتدائی نتائج میں کانگریس کو حاصل ہونے والی واضح برتری نے سب کو حیران کر دیا ہے۔نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق پانچوں ریاستوں سے جو رحجانات آ رہے ہیں ان کے مطابق کا نگریس بی جے پی کے اقتدار والی دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں واضح طور پر اکثریت کی طرف بڑھ رہی ہے۔تیسری ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس اور بے جے پی میں زبردست مقابلہ ہے اور ہار جیت کا فیصلہ بہت کم فرق سے ہونے کی توقع ہے۔جنوبی ریاست تلنگانہ میں علاقائی جماعت ٹی آر ایس اور شمال مشرقی ریاست میزررم میں میزو نیشنل فرنٹ واضح طورپر اکثریت حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ان دونوں ریاستوں میں کانگریس دوسرے مقام پر ہے۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی 15 برس سے اقتدار میں تھی جبکہ راجستھان میں وہ پانچ برس قبل اقتدار میں آئی تھی۔ ان ریاستوں میں وزیراعظم نریندر مودی اور کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے انتخابی مہم میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔بے جے
پی کے اقتدار والی دو ریاستوں میں کانگریس کی ممکنہ جیت کو ملک کی قومی سیاست میں اس کی موثر واپسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔آئندہ چند ماہ میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ شمالی ریاستوں میں بی جے پی کی ممکنہ شکست پارٹی کے لیے بہت بڑا انتخابی دھچکہ ہے۔گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو بیشتر نشستیں شمالی ریاستوں سے ہی ملی تھیں۔کانگریس کا شمالی ریاستوں سے مکمل طو پر خاتمہ ہو گیا تھا۔ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اس کی واپسی سے پارٹی کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔مکمل نتائج آنے میں میں ابھی کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں لیکن جے پور، رائے پور اور دلی میں کانگریس کے دفاتر کے باہر پارٹی کے حامی جمع ہونے لگے ہیں۔بی بی سی کے دہلی میں نامہ نگار سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ کانگریس نے نمایاں طور پر تین اہم ریاستوں میں اپنی کاکردگی کو بہتر بنایا ہے اور اس کے نتیجے میں اس رائے کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی کہ وزیراعظم مودی کو شکست نہیں دی جا سکتی، جماعت کے کارکنوں کا حوصلہ بلند ہو گا اور کانگریس جماعت آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات میں اس وقت کشمکش کا شکار علاقائی اتحادیوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہو جائے گی۔بی بی سی ہندی کے راجستھان میں نامہ نگار نتن سری واستو کی تصاویر میں کانگریس اور بی جی پی کے پارٹی دفاتر میں بالکل مختلف ماحول دیکھا جا سکتا ہے۔