شیریں مزاری ، فیصل واوڈا سمیت کس کس کے ہاتھ سے وزارت نکلنے والی ہے اور وزارتوں کی دیوی کس کس پر مہربان ہونے والی ہے ؟ باخبر صحافی نے پیشگوئی کر دی
ناجانے وہ کونسی مصلحت اور مجبوری ہے کہ وزیراعظم زلفی بخاری کی دوستی کے آگے کسی قانون‘ میرٹ اور ضابطے کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں۔ وہ خواہ سپریم کورٹ ہو یا نیب خان صاحب سب سے ہی نالاں اور شاکی ہیں۔اس حوالے سے حکومتی اور پی ٹی آئی کے حلقوںنامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں بھی تشویش پائی
جاتی ہے کہ عمران خان کے سخت مؤقف کی وجہ سے انہیں خواہ مخواہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کیازلفی بخاری کے سوا کوئی اس قابل نہیں جو اس عہدے پر کام کر سکے؟ متعدد حالیہ کالموں میں وزیراعظم صاحب کو باور کرایا ہے کہ سو دن کی آزمائشی پرواز کے بعد جو سواریاں تاحال آپ پر بوجھ اور جواب دہی کا باعث بن رہی ہیں خدارا انہیں آف لوڈ کر دیں۔ یہ ملک اب مزید تجربات اور ”اللّوں تللّوں‘‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس قوم کو وہ حکمران اور عمران خان چاہیے جو کنٹینر پر گھنٹوں کھڑے ہوکر میرٹ‘ قانون‘ ضابطے اور اخلاقیات کی بات کر تھا اور شریف برادران کی اقربا پروری اور عہدوں کی بندر بانٹ پر سخت تنقید کرتا تھا‘ لیکن صورتحال اور منظر نامہ آج بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج بھی سرکاری وسائل دوستیوں اور یاریوں پر ”واری‘‘ ہیں۔دوسری طرف وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا اشارہ ملتے ہی لابنگ اور بھاگ دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ اسد عمر کی متوقع تبدیلی کے پیشِ نظر مشرف دور کے وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب نے بھی متبادل وزیر خزانہ بننے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔میرٹ اور کارکردگی کے پیش نظر شیریں مزاری‘
اعظم سواتی‘ فیصل واوڈا اور کئی دیگر کی وزارتوں پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ عمران خان نئی کابینہ میں کون سے نئے کھلاڑی میدان میں اتارتے ہیں جو مطلوبہ اہداف کے حصول میں کس حد تک عمران خان کو سرخرو کر سکیں گے؟ جبکہ عمران خان کو یہ مشورہ بھی دیا جا رہا ہے کہ یہ وقت کابینہ میں تبدیلی کا نہیں ہے۔ اس سے حکومت کا مورال نہ صرف متاثرہوگا بلکہ اس اقدام کو حکومتی ناکامی سے منسوب کیا جائے گا اور اپوزیشن کے ہاتھ نیا ایشو آجائے گا ‘جو اسے بطور کارڈ استعمال کر سکتی ہے۔ اس لیے فی الحال کابینہ میں تبدیلی کے امکان کو ردکر دینا ہی بہتر ہے۔ بہرحال عمران خان نے کابینہ میں تبدیلی کا اشارہ دے کر ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینک دیا ہے‘ جس سے حکومت اور پارٹی کے اندر ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے کہ اکثر ارکانِ اسمبلی خود کو متبادل قیادت ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور عمران خان کے اس مؤقف کی تائید اور باقاعدہ لابنگ بھی کر رہے ہیں۔ بے تکے‘ غیر متعلقہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی ان سو دنوں میں حکومت کے لیے وبال بنے رہے ہیں اس حوالے سے ابھی خبر آئی ہےکہ تمام وزرا
اور مشیروں کو بیان بازی سے روک دیا گیا ہے۔اس حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ صرف وزیراطلاعات فواد چوہدری کے بیان کو ہی سیاسی پالیسی بیان تصور کیا جائے اور وہ ہی کسی ایشو پر بحیثیت حکومتی ترجمان بیان دے سکتے ہیں… دیر آیددرست آید… یہ ایک مثبت اور اہم فیصلہ جو حکومت نے کافی دیر سے کیا۔ خیر کیا تو سہی۔وزیر اعظم عمران خان نیب سے بھی نالاں ہیں جبکہ دو‘سری طرف حکومت پنجاب کی کارکردگی سے بھی کوئی خاص مطمئن نہیں۔ اس حوالے سے وزراکی کارکردگی اور میڈیا مینجمنٹ پر بھی اعتراضات پائے جاتے ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ پنجاب حکومت میں کافی کام ہورہا ہے جس کی مناسب اور باقاعدہ تشہیر نہیں کی جارہی۔ اگر ان تمام حکومتی اقدامات کی پبلسٹی اور میڈیا مینجمنٹ پر کام کیا جاتا تو حکومتِ پنجاب کی کردار سازی بہتر انداز میں ہو سکتی تھی۔ جو وزرا کی ناکامی اور ناقص کارکردگی کا سبب بن رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتِ پنجاب کے کس وزیر نے کونسی ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ابھی تک میڈیا سے پوشیدہ ہے۔ اس حوالے سے مجھے ماضی کا ایک واقعہ یاد آگیا جو مجھے مرحوم بیوروکریٹ دوست شیخ
ظہورالحق نے سنایا تھا‘ جو ان کے اپنے ساتھ پیش آیا۔ شیخ ظہور الحق اُن دنوں سیکرٹری اطلاعات پنجاب کے عہدہ پر تعینات تھے۔ سردار عارف نکئی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سیکرٹری اطلاعات کو طلب کیا اور کہا : سیکرٹری صاحب مجھے اخبارات میں ہر روز لیڈ(سرخی) چاہیے۔ سیکرٹری اطلاعات شیخ ظہور الحق نے کہا: جی ضرور کیوں نہیں۔ آپ روز کوئی ایسا بڑا کام کر دیا کریں جس کی بنیاد پر میں اخبار میں سرخی لگوا سکوں۔ اس پر وزیر اعلیٰ عارف نکئی نے حیرانی سے پوچھا :یہ روز کیسے ممکن ہے؟ جس پر سیکرٹری اطلاعات نے جواب دیا کہ پھر میں لیڈ بھی روزانہ نہیں لگوا سکتا۔ اس جواب کا وزیراعلیٰ عارف نکئی نے برا بھی منایا۔ میڈیا مینجمنٹ اچھی ہو یا بری… خوشبو اور بدبو کا راستہ کون روک سکتا ہے؟ ایسے میں کام کئے بغیر کردار سازی اور تشہیر کی توقع ایسے ہی ہے جیسے ”چارہ‘‘ بو کر ”گندم‘‘ کی توقع کی جائے۔(ش س م)