حکومت نے آخر کار سوشل میڈیا کے بارے میں ایسا ‘ اعلان کر ہی ڈالا جس کا ہرایک کو انتظار تھا
اسلام آباد (آئی این پی )پیمرا‘ پریس کونسل آف پاکستان اور دیگر اداروں کو ختم کر کے ملک میں ایک ہی میڈیا ریکولیٹری باڈی کا قیام عمل میں لایا جائے گا‘ ٹیکنالوجی اور شعبہ صحافت میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں سے مزید مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے‘ ، آج میڈیا کو سب سے بڑا خطرہ میڈیا مالکان کے کاروباری ماڈل ہے ‘ریٹنگ کے چکر سے نکل کر انتشار والے مواد سے اجتناب کرنا چاہیے‘ ہم اپنی کمزوریوں کو دوسروں کے سامنے خود رکھتے ہیں پھر کوئی اعتبار کیسے کرے گا‘ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر مغربی میڈیا خاموش‘ آسیہ بی بی کے بارے میں خبریں دنیا کے ہر کونے میں ملیں گی‘ یہ مغربی میڈیا کا دہرا کردار ہے‘ صحافی بھی قومی سلامتی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ این جی اوز کے ذریعے ہماری قومی روایات کو تباہ کیا گیا’ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی میڈیا اور قومی سلامتی کے اداروں میں ٹکرائو کی کیفیت نہیں ہوتی‘ ذاتی اور کاروباری مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کے باعث اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ میڈا مینیجمنٹ کو کے لیے شارٹ ٹرم پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا‘ قومی سلامتی میں میڈیا کا بنیادی کردار ہے‘ پاکستا ن میں مئوثر میڈیا ریگولیشن سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (پکس) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک روزہ کانفرنس کے دوران کیا‘ کانفرنس سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری‘ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی‘ پریس کونسل آف پاکستان کے چیئر مین ڈاکٹر عطایٔ اللہ مینگل‘ چییئر میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز میجر جنرل سعد خٹک‘ ڈائریکٹر جنرل لائنسنگ پیمرا وکیل خان معروف اینکر پرسن نسیم زہرا‘ احمد قریشی‘ مینیجنگ ڈائریکٹر پکس عبداللہ خان‘ عامر ضیا‘ امیر عباس ‘ امبر شمسی‘ شوکت پراچہ‘ ایس ایم حالی‘ ڈاکٹر خالد‘ خالد جمیل‘ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے جڑواں شہروں کے سینئر صحافیوں‘ دانشوروں‘ سول سوسائیٹی کے نمائندوں‘ پروفیسرز اور دیگر نے بھر پور شرکت کی۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ پاکستان میں دنیا کا سب سے زیادہ آزاد میڈیا ہے، اس وقت پاکستانی میڈیا مالی دبائو کا شکار ہے، ورکرز کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے، آج میڈیا کو سب سے بڑا خطرہ میڈیا مالکان کے کاروباری ماڈل ہے، وہ چاہتے ہیں
کہ حکومت اشہتارات جاری کر کے ان کی مالی ضروریات پوری کرے جو کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ممکن نہیں، اگر ملک کی معاشی صورتحال بہتر بھی ہوتی تو یہ حکومت کا اختیار نہیں کہ وہ عوام کے ٹیکس کی رقم نجی کاروبار کے لئے دے، میڈیا مالکان کو حکومت پر انحصار کم کر کے اپنا بزنس ماڈل پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے جعلی طور پر ایڈورٹائزنگ مارکیٹ کو توسیع دی اور اسے 12 ارب روپے سے بڑھا کر 35 سے 40 ارب روپے تک لے جایا گیا تاہم موجودہ حکومت نے ضرورت کے مطابق اشتہارات جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند سال میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب سے ماس میڈیا میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی اور یہ نیا انقلاب میڈیا کی موجودہ صورتحال کو بالکل بدل کر رکھ دے گا، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں انقلاب سے ملازمتوں کے مواقع کم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا، پریس کونسل آف پاکستان اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو جدید دور کے تقاضوں سے نمٹنے کے لئے ضمن کیا جا رہا ہے، عملی طور پر سمارٹ فون نے اخبار، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کی جگہ لے لی ہے، ان تینوں اداروں کو ضم کر کے نئی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی اکیڈمیوں کو ضم کر کے پاکستان میڈیا یونیورسٹی قائم کرنا چاہتی ہے، اس سے تخلیقی اور انجینئرنگ سے وابستہ لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ 1960ء میں ہم ریڈیو پاکستان کے لئے ٹرانسمیٹر خود تیار کرتے تھے تاہم اب ہم درآمد کر رہے ہیں، حکومت ریڈیو انجینئرنگ کی بحالی اور ملکی سطح پر ریڈیو ٹرانسمٹر تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہو گی