حکومت نے یہ چیز کبھی ہمارے خلاف استعمال کی تھی اب ان کے اپنے گلے پڑ گئی ہے پہلی حکومت دیکھی ہے جو ہمیں اس چیز کی پیشکش خود کر رہی ہے خواجہ سعد رفیق بھی میدان میں آگئے ، چونکا دینے والا انکشاف
اسلام آباد(آئی این پی)مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما و رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ جس مذہب کارڈ کو حکومتی جماعت نے ہمارے خلاف بے دردی سے کھیلا وہی مذہبی کارڈ آج حکومت کیخلاف استعمال ہو رہا ہے،وزیر اعظم کا قوم سے خطاب میںرویہ جارحانہ تھا،حکمران کا رویہ جارحانہ نہیں ہونا چاہیے ،حکومت کوشش کرے کے افہام تفیہم اور مذاکرات کے ذریعے اس مسلے کا حل نکالیں اور ملکی حالات ٹھیک کریں،وہی لوگ آج کہہ رہے ہیں کہ راستے بند کرناقومی مفاد میں نہیں جو ماضی میں راست بند کرتے رہے،موجودہ ملکی حالات میں کوئی سیاسی فائدہ اٹھانہ نہیں چاہتے کیونکہ ریاست پاکستان ہم سب کی ہے،حکومت اب اپنی ماضی کی غلطیوں کو مان لے اب ان میں سیاسی پختگی آجانی چاہیے،۔وزیر اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں ہی اپوزیشن کو کنٹینر کی پیشکش کردی،دنیا کہ پہلے حکمران دیکھے جن کو سکون اور آرام نہیں چاہیے،حکومت بار بار ہمیں دعوت دیتی ہے کہ آئو ہمارے گلے پڑو مگر ہم ابھی اپ سے لڑنا نہیں چاہتے ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اداروںکیخلاف جو زبان استعمال کی گئی وہ ناقابل قبول ہے اور ہم ان کو مسترد کرتے ہیں۔حکومت طاقت کے استعمال سے گریز کرے،سپریم کورٹ یا کسی بھی عدالت کے فیصلے کیخلاف تنقید ہوتی ہے،مگر کوئی گالیاں اور دھمکیاں نہیں دے سکتا ،سپریم کورٹ نے درست فیصلہ کیا ہو گا مگر جو پہلا فیصلہ تھا اس کے نتیجہ میں سلما ن تاثیر جیسے بڑے مدبر سیاستدان کا قتل ہوا،اسکے بعد ممتاز قادری والا واقع ہو گیا، درجنوں لوگ اپنی جانوں سے گئے،ان سب کا خون کس کے سر ہے؟نظام عدل پر سوالات تو اٹھیں گے،فیصلے بلا خوف کئے جانے چاہیں جو قانون کے مطابق ہوں ۔وہ جمعرات کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کر رہے تھے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سپیکر نے منتخب ہونے کے بعد جس طرح غیر جانبدرانہ انداز میں ایوان کو چلایا اس پر انہیں خراجہ تحسین پیش کرتا ہوں،انہیں رویوں سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا،اگر حکومت اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہتی تو ہم ان کو مجبور نہیں کر سکتے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان ہم سب کی ہے۔اس ایوان میں جو اج حکومت میں بیٹھے تھےآج وہ اپوزیشن میں اور جو
اپوزیشن میں کل بیٹھے تھے آج حکومت میںبیٹھے ہیں،یہ نظام چلتا رہے گا اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہم اپوزیشن میں کیوں بیٹھے ہیں۔ملک میں اس وقت بحرانی کیفیت پیدا ہوئی ہے،ملک بھر میں سڑکیں بند ہیں،کچھ عناصر مذہب کا نام استعمال کر کہ ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں،ان لوگوں کا جو بیانیہ ہے اس کے ساتھ کو ئی باشعور شخص اتفاق نہیں کرتا۔اگر ہم موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے حکومت کہ ماضی کے روئیے کی بات کریں گے تو حکومت کو وہ باتیں سننا ہوں گی،جس مذہب کارڈ کو حکومتی جماعت نے کچھ عرصہ قبل اس وقت کی حکمران جماعت کیخلاف بے دردی سے کھیلا تھا ،وہی مذہبی کارڈ آج حکومت کیخلاف استعمال ہو رہا ہے،ملک میں بڑی افسوسناک صورتحال ہے جس سے کوئی ذمہ داری آدمی خوش نہیں ہو سکتا۔امہوں نے کہا کہ گزشتہ روز عمران خان صاحب کا خطاب سنا،وزیر اعظم کی باڈی لینگوئج زیادہ سخت تھی اور انکا رویہ جارحانہ تھا،حکمران سب کیلئے ہوتے ہیں اور وہ ایک باپ کی شکل میں ہوتا ہے ،حکمران کا رویہ جارحانہ نہیں ہونا چاہیے ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس وزیر داخلہ کا بھی قلمدان ہے انہیں ایوان میں انا چاہیے تھا اور ملکی موجود ہ صورتحال پر اپنا پالیسی بیان دینا چاہیے تھا،یہ ملک کا اعلیٰ ترین ایوان ہے اور ملک کی قسمت کے فیصلے اس ایوان میں ہونے ہیں۔آج کہا جا رہا ہے کہ راستے بند کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے،یہ بات درست ہے،لیکن کچھ عرصہ پہلے حکومتی جماعت راستے بھی بند کر رہی تھی اور لاک ڈائون بھی کر رہی تھی اور تاریخیں دے رہی تھی کہ ہم شہروں کو بند کر دیں گے ،حکومت کوآج اپنے ماضی کے روئیے پر ندامت ہونی چاہیے،حکومتی جماعت کو اب فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ مستقبل میں ایسا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار نہیں کریگی۔حکومت سے آج ہماری اتنی سی باتیں برداشت نہیں ہو رہیں،ابھی تو ہم نے کوئی بات ہی نہیں کی اگر کریں گے تو پھر حکومت کیا کیا بنے گا۔ملک میں موجودہ صورتحال کو ہینڈل حکومت نے کرنا ہے،حکومت کے صبر کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی کو بات کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔حکومت اگر ہماری بات نہیں بھی سنے گی تو ہم سناتے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ آج ملک میں میڈیا پر مکمل پابندی ہے کیا یہ جمہوریت ہے؟ہم حکومت کے اس فعل کی حمایت نہیں کرتے۔حکومتی قائدین ماضی میں آج دھرنے دینے والوں کے پروگراموں میں جاتے رہے اور مذہب کارڈ کھیلتے رہے۔کل کون کہہ رہا تھا کہ جلائو گھیرائو،پی ٹی وی پر حملہ کر دو،پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے قبریں کھودی گئیں۔حکومت اب اپنی ماضی کی غلطیوں کو مان لے اب ان میں سیاسی پختگی آجانی چاہیے،ہم حکومتی جماعت کے ماضی کے روییے کو نہیں اپنانا چاہتے۔وزیر اعظم نےاپنی پہلی تقریر میں ہی اپوزیشن کو کنٹینر کی پیشکش کردی،دنیا کہ پہلے حکمران دیکھے جن کو سکون اور امن نہیں چاہیے،حکومت بار بار ہمیں دعوت دیتی ہے کہ آئو ہمارے گلے پڑو مگر ہم ابھی اپ سے لڑنا نہیں چاہتے ،ہم چاہتے ہیں کہ آپ کام کریں۔گزشتہ روز آصف زرادی اور شہباز شریف نے مدبرانہ گفتگو کی کوئی آپ کے نیچے نہیں لگنا چاہتا۔سیاسی انتقام ہم پہلی بار نہیں دیکھ رہے ،پہلے بھی 6،6بار جیلوں میں جا چکے ہیں7ویں بار بھی جانے کو تیار ہیں۔ہم صرف چاہتے ہیں کہ ہماری لڑائی میں کہیں یہ ایوان کمزور نہ ہوجائے،خدانخواستہ جمہوریت کیساتھ کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔اس بات کو سمجھا جانا چاہیے،حکومت میں بیٹھے سنجیدہ لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قومی اداروںکیخلاف جو زبان استعمال کی گئی وہ ناقابل قبول ہیں اور ہم ان کو مسترد کرتے ہیں۔حکومت طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔سپریم کورٹ یا کسی بھی عدالت کے فیصلے کیخلاف تنقید ہوتی ہے،مگر کوئی گالیاں اور دھمکیاں نہیں دے سکتا اسکی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ ایک خاتون 9سال جیل میں رہی،اگر بے گناہ تھی تو 9سال جیل میں کیوں ڈالے رکھا یہ سوال لوگ پوچھیں گے تو ضرور۔2عدالتوں نے اس سے قبل بھی فیصلہ کیا ،سپریم کورٹ نے درست فیصلہ کیا ہو گا مگر جو پہلا فیصلہ تھا اس کے نتیجہ میں سلما تاثیر جیسے بڑے مدبر سیاستدان کا قتل ہوا،اسکے بعد ممتاز قادری والا واقع ہو گیا درجنوں لوگ اپنی جانوں سے گئے،ان سب کا خون کس کے سر ہے؟نظام عدل پر سولات تو اٹھیں گے،فیصلے بلا خوف کئے جانے چاہیں جو قانون کے مطابق ہوں تو شائد ایسے حالات پیدا نہ نہوں۔حکومت کوشش کرے کے افہام تفیہم اور مذاکرات کے ذریعے اس مسلے کا حل نکالیں اور ملکی حالات ٹھیک کریں۔