پاکستان سے ہزاروں اے ٹی ایم کارڈ فروخت کےلئے پیش پاکستانیوں کے اربوں روپے دائو پرلگ گئے، خوفناک صورتحال
کراچی(این این آئی) شہریوں کا ڈیبٹ کارڈ اور بینک اکاؤنٹ محفوظ نہیں ہیں۔عالمی ویب سائٹ نے پاکستانی بینکوں کے 8 ہزار 704 ڈیبٹ کارڈ کا ڈیٹا چوری ہونے کا دعویٰ کیاہے۔آن لائن سیکیورٹی ایجنسی نے9 پاکستانی بینکوں کے اے ٹی ایم کارڈز آن لائن فروخت کے لیے پیش ہونے کا دعوی کیاہے دوسری جانب بینکوں نے بھی صارفین کو خطرے سے آگاہ کرنا شروع
کردیا ہے۔ ویب سائٹ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے 10ہزار400کارڈز کا ڈیٹا آن لائن فروخت کے لیے پیش کیا گیاجس میں سے 8 ہزار 700 کارڈز پاکستانی بینکوں کے تھے۔دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف ہاکستان نے پاکستانی بینکوں پر مزید سائبرحملوں کاخدشہ ظاہر کیا ہے۔خصوصی گفتگو میں ترجمان اسٹیٹ بینک عابد قمبر نے بتایاکہ صارفین ہوشیاررہیں،سائبر حملوں کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بینکوں کے ڈیٹاچوری کی رپورٹ سامنے آئی ہے،کچھ بینکوں نے انٹرنیشنل ڈیبٹ کارڈ کی سہولت روک دی ہے۔ترجمان نے بتایاکہ ڈیٹا چوری کی رپورٹ کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو سائبر سیکورٹی بڑھانے کی ہدایت کردی ہے اور بینکوں کو آئی ٹی سسٹم بہترکرنے کا کہا ہے۔دریں اثناء بینکنگ حلقوں میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ڈیٹا کے پھیلنے سے متعلق خدشات کے پیش نظر تقریباً 10 بینکوں نے اپنے کارڈز پر تمام بین الاقوامی ٹرانزیکشن بلاک کردی۔ذرائع کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان ( ایس بی پی ) کو مختلف کمرشل بینکوں کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ ان کے صارفین کے اکاؤنٹس پر سائبر حملوں کے بعد حفاظتی اقدامات کے پیش نظر انہوں نے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ پر بین الاقوامی ادائیگیاں روک دی ہیں۔ڈیجیٹل سیکیورٹی ویب سائٹ کریبسن سیکیورٹی ڈاٹ کام کے مطابق تقریباً 10 پاکستانی بینکوں کے 8 ہزار اکاؤنٹ ہولڈرز کا ڈیٹا ہیکرز کی مارکیٹ میں فروخت کیا گیا اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کےترجمان اعلیٰ عابد قمر نے بتایا کہ اکاؤنٹ ڈیٹا کی چوری سے متعلق رپورٹ کی اس وقت تصدیق نہیں کی جاسکتی اور جب تک چوری شدہ مبینہ ڈیٹا کو اکاؤنٹس سے رقم کی چوری کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا اس رپورٹ کو درست نہیں کہہ سکتے تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی
کہ کچھ بینکوں نے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر اپنے کارڈز پر بین الاقوامی ادائیگیاں روک دی ہیں اور اس بارے میں اسٹیٹ بینک کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب ایک بڑے پاکستانی بینک کی جانب سےاپنے صارفین کو پیغامات بھیجے گئے کہ تکنیکی بنیادوں‘ پر 3 نومبر سے آن لائن بینکنگ سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے۔واضح رہے کہ 27 اکتوبر کو بینک اسلامی کی جانب سے پہلی مرتبہ سائبر حملے کو رپورٹ کیا گیا تھا اور بینک نے کہا تھا کہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے کارڈز سے 26 لاکھ روپے چوری ہونے کے بعد انہوں نے اس طرح کی ٹرانزیکشن روک دی ہیں اور صرف پاکستان میں اے ٹی ایم کارڈز پر باہمی تصدیق شدہ ادائیگی ہوسکتی ہے۔ اس سائبر حملے کے اگلےروز اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو ہدایت دی تھیں کہ وہ کارڈ آپریشن سے متعلق انفارمیشن ٹیکنالوجی نظام پر سیکیورٹی اقدامات کو یقینی بنائیں، اس کے علاوہ مستقبل کے چیلینجز سے نمٹنے کے لیے اسے مسلسل اپ ڈیٹ کریں۔اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت دی تھی کہ کارڈ کارڈ آپریشنز سے متعلق نظام اور ٹرانزیکشن کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ کو یقینی بنانے اور مربوط ادائیگیوں، سوئچ آپریٹرز اور میڈیا سروس فراہم کرنے والوں کے ساتھ فوری رابطے کو یقینی بنائیں۔اس سارے معاملے پر کراچی کے ایک ٹریول ایجنٹ عابد بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ ان صارفین کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے جو بیرون ملک میں مقیم ہیں، وہ بلوں کی ادائیگیاں کیسے کریں گے اور وہ ان سروسز کی ادائیگی بھی کس طرح کریں گے جو وہ پہلے ہی حاصل کرچکے ہیں۔ان کا کہنا بینکوں کو اپنے کارڈ کی ادائیگیوں کے حوالے سے دیگر آپشن کو ضرور استعمال کرنا چاہیے کیونکہ ’ اگر میں یورپ یا امریکا میں پاکستانی بینک کے ڈیبٹ کارڈ کے ساتھ ہوں اور اچانک تمام ادائیگیاں رک جائیں تو یہ میرے لیے بہت خطرناک ہوسکتا ہے تاہم مسلسل سفر کرنے والے شخص ناظم علی کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی ایک ڈیبٹ کارڈ پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ اگر ایک کارڈ بلاک یا گم جائے تو ان کے پاس دوسرے کا آپشن موجود ہوتا ہے، اس کے علاوہ وہ نقد رقم کو بھی استعمال کرتے ہیں۔