واشنگٹن(نیوزڈیسک) امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ پاکستان نے اب تک دہشت گرد گروہوں کے خلاف اتنی کارروائی نہیں کی کہ اس کی منسوخ شدہ امریکی امداد بحال کی جاسکے۔ گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے پاکستان کی امداد منسوخ کرنا کوئی اچانک قدم نہیں تھا اور نہ ہی یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی خبر تھی۔ پاکستانیوں کو پتا ہے کہ یہ رقم کیوں روکی گئی ہے کیوں کہ ہمیں انہوں نے وہ کارکردگی نہیں
دکھائی جس کی ہمیں ان سے توقع تھی۔ اسلام آباد میں اپنی ملاقاتوں کے دوران پاکستانی قیادت کو یہ باور کرائیں گے کہ امریکہ کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف وہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی جس کی اسے توقع تھی۔ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت پر اپنی توقعات واضح کرنا چاہتا ہے اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان اس مفاہمت کے حصول میں ہماری سنجیدگی سے مدد کرے جو ہم افغانستان میں چاہتے ہیں۔فغانستان میں ثالثی کے لیے پاکستان امریکا کی مدد کرے، اگر پاکستان کا تعاون نہ ملا تو جو ہوگا وہ جنرل نکلسن اور جنرل ملر بتاچکے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت کے آغاز پر ہی ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کواز سرِ نو شروع کرنا ہے۔صحافیوں سے گفتگو میں مائیک پومپیو نے بتایا کہ دورہ پاکستان کے بعد بھارت بھی جائیں گے اورمذاکرات کے دوران وہ بھارتی حکام کو بھارت کی جانب سے روس سے میزائل نظام کی خریداری پر امریکی تشویش سے آگاہ کریں گے جب کہ ایران سے تیل کی درآمدات روکنے پر بھی اصرار کریں گے۔تاہم امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں معاملات ان دیگر امور پر اثر انداز نہیں ہوں گے جن میں تعاون کے لیے دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بات چیت جاری ہے۔امریکی ٹی وی کے مطابق سیکریٹری پومپیو نے یہ بات واشنگٹن ڈی سی سے اسلام آباد روانگی کے بعد جہاز میں
موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں اپنی ملاقاتوں کے دوران پاکستانی قیادت کو یہ باور کرائیں گے کہ امریکہ کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف وہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی جس کی اسے توقع تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف اتنی کارکردگی نہیں دکھائی جس کے پیشِ نظر ہم اس کی معاشی امداد بحال کرنے کی وکالت کرنے کے قابل ہوں۔تاہم ساتھ ہی امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں نئی حکومت کے آغاز پر ہی ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کواز سرِ نو شروع کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات میں کئی چیلنج درپیش ہیں لیکن ان کے بقول ہمیں امید ہے کہ نئی قیادت کے ساتھ ہم مشترک قدریں تلاش کر سکتے ہیں اور اپنے بعض مشترکہ مسائل پر مل کر کام شروع کرسکتے ہیں۔اپنی گفتگو میں مائیک پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت پر اپنی توقعات واضح کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے پاکستان کی امداد منسوخ کرنا کوئی اچانک قدم نہیں تھا اور نہ ہی یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی خبر تھی۔امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستانیوں کو پتا ہے کہ یہ رقم کیوں روکی گئی ہے کیوں کہ ان کے بقول ہمیں انہوں نے وہ کارکردگی نہیں دکھائی جس کی ہمیں ان سے توقع تھی۔انہوں نے کہا کہ ان کے اسلام آباد کے دورے کا مقصد بھی پاکستانیوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ امریکہ ان سے کیا چاہتا ہے۔ ان کے بقول ہم چاہتے ہیں کہ
پاکستان اس مفاہمت کے حصول میں ہماری سنجیدگی سے مدد کرے جو ہم افغانستان میں چاہتے ہیں۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے خواہش کا اظہار کیا کہ افغانستان میں ثالثی کے لیے پاکستان امریکا کی مدد کرے۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کا تعاون نہ ملا تو جو ہوگا وہ جنرل نکلسن اور جنرل ملر بتاچکے ہیں۔صحافیوں سے گفتگو میں مائیک پومپیو نے بتایا کہ دورہ پاکستان کے بعد بھارت بھی جائیں گے اورمذاکرات کے دوران وہ بھارتی حکام کو بھارت کی جانب سے روس سے میزائل نظام کی خریداری پر امریکی تشویش سے آگاہ کریں گے جب کہ ایران سے تیل کی درآمدات روکنے پر بھی اصرار کریں گے۔تاہم امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں معاملات ان دیگر امور پر اثر انداز نہیں ہوں گے جن میں تعاون کے لیے دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بات چیت جاری ہے۔