دنیا میں جن چند عوامل کو ایک فتنہ قرار دے دیا گیا ہے ان میں سے ایک عورت بھی ہے۔ جمہوریت پسندی اور روشن خیالی کے اسباق اور اصولوں کے برعکس اسلام میں عورت کی گواہی اور عورت کی حکمرانی کو کسی بھی معاشرے کی تباہی کی موجد قرار دے دیا گیا ہے۔ اور ایک سربراہ کی حیثیت ایک مرد کو ہی حاصل ہے کیونکہ فطری طور پر مرد ایسے امور
میں مضبوط اعصاب اور فیصلہ سازی کی قوت کا حامل ہوتاہے۔ تاہم یہاں ہزاروں سال قبل پیش آئے ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں اور زہرہ نامی ایک بدکار عورت کے تاریخی واقعے کا ذکر کیا گیا ہے۔ عدنان احمد کاکڑ نامی ایک مصنف نے اپنی ایک تحریر میں بتایا ہے کہ مسند احمد اور تفسیر نعیمی وغیرہ کی بعض روایات بیان کرتی ہیں کہ حضرت ادریسؑ کے زمانے میں ایک مرتبہ فرشتوں نے بنی آدم پر اعتراض کیا کہ یہ نہایت بدکار ہیں، ان کی جگہ ہمیں زمین پر حکومت دی جائے۔ اس پر رب کریم نے انہیں کہا کہ انسانوں کو غصے اور شہوت کی جو کمزوریاں دی گئی ہیں وہ تمہیں دی جائیں تو تم بھی گناہ کرو گے۔ فرشتے کہنے لگے کہ ہم تو گناہ کے پاس بھی نہ جائیں گے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ فرشتوں کی اس جماعت کے دو اعلی درجے کے پرہیزگار فرشتے چن کر انہیں یہ انسانی کمزوریاں دی جائیں اور زمین پر اتار دیا جائے۔ یوں ہاروت ماروت کو شہر بابل میں اتار دیا گیا۔بابل کے لوگ ان کے پاس آتے اور ان سے جادو سیکھنے کی خواہش کرتے۔ یہ لوگوں کو خوب خبردار کر دیتے کہ جادو بڑا گناہ ہے اور سیکھ کر تم جہنم میں جاؤ گے، جو لوگ پھر بھی اصرار کرتے یہ انہیں سکھا دیتے۔ رات کو اسم اعظم پڑھ کر یہ دونوں آسمان پر چلے جاتے۔قسمت ان کی بری تھی کہ ان کو ایک پری پیکر زہرہ نامی مل گئی کہ حسن اس کا بے مثال تھا۔ اس کے حسن کو دیکھ کر یہ دیوانے ہو گئے۔ زہرہ ان سے اسم اعظم سیکھنے کی متمنی تھی مگر یہ دونوں فرشتے اس سے انکاری تھے۔ لیکن زہرہ کے حسن نے ان پر جادو کر رکھا تھا اور وہ کسی بھی قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ زہرہ نے ان سے مطالبہ کی کہ تم شرک کرو تو میں تمہاری
ہوں۔ ہاروت ماروت جانتے تھے کہ شرک ایسا گناہ ہے کہ اس کی معافی نہیں ہے۔ انہوں نے انکار کر دیا۔اب زہرہ نے شرط پیش کی کہ ایک بچہ قتل کرو تو مجھ پر تمہیں اختیار ہے۔ ہاروت ماروت انکاری ہوئے کہ بے گناہ کو مارنا بڑا جرم ہے۔ آخر زہرہ شراب لے کر آئی اور کہا کہ یہ پی لو تو پھر جو کہو گے ویسا کروں گی۔ ہاروت ماروت نے سوچا کہ شراب پینا تو بڑا گناہ نہیں ہے۔ پی گئے۔ ہوش سے بیگانے ہوئے۔ زہرہ نے بدکاری کے بدلے ان سے اپنے بت کو سجدہ بھِی کرایا اور بچہ بھی قتل کروا دیا۔جب انہیں ہوش آیا تو وہ کہنے لگی کہ تم نے جن دو کاموں کو کرنے سے انکار کیا تھا نشے میں مد ہوش ہونے کے بعد تم نے اس میں سے ایک کام کو بھی نہ چھوڑا۔ پھر انہیں ان گناہوں کے بدلے دنیا کی سزا اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کی سزا کو اختیار کرلیا۔تفسیر نعیمی میں بچے کی جگہ شوہر قتل کروانے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہاروت ماروت دونوں اسم اعظم جانتے تھے۔ اسم اعظم پڑھ کر وہ ہر رات آسمان پر چلے جاتے تھے۔ زہرہ نے ان سے نشے کی حالت میں اسم اعظم سیکھ لیا اور جب ہاروت ماروت ہوش و حواس میں واپس آئے تو انہیں یہ بھول چکا تھا اور زہرہ اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چلی گئی تھی جہاں رب کریم نے اس کی روح کو زہرہ ستارے سے متصل کر دیا۔تفسیر نعیمی میں لکھا ہے کہ ہاروت ماروت کو بطور سزا زنجیروں سے جکڑ کر چاہ بابل میں الٹا لٹکا دیا گیا، اس کنویں میں آگ بھڑک رہی ہے اور فرشتے ہر وقت ان کو کوڑے مارتے ہیں اور پیاس سے ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی ہیں اور یہ قصہ سنن بیہقی، مسند امام احمد اور دیگر کتب احادیث میں بہ اسناد صحیح مروی ہے۔ہاروت ماروت کے حشر سے عبرت پکڑ کر باقی فرشتوں نے اپنی خطا کا اقرار کیا اور زمین والے خطاکار انسانوں پر بجائے لعن طعن کرنے کے ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے لگے۔تو صاحبو یہ قصہ بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ مرد کیا چیز ہے، عورت کے حسن کی تپش سے تو بڑے بڑے نیکوکار فرشتے بہک جاتے ہیں اور روئے زمین پر اپنی پارسا حکومت بنانے کی بجائے چاہ بابل میں الٹے لٹک کر سزا پاتے ہیں