Thursday November 28, 2024

“اماں ! اپنے بیٹے کو سنبھال لے، کل ضائع ہوگیا تو پھر رونا مت” دبنگ پولیس افسر چودھری اسلم نے یہ بات کس بڑھیا کو کہی تھی، لرزہ خیز تحریر سامنے آگئی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) بالی ووڈ کی فلموں میںبھارتی فلم انڈسٹری کے مرکز ممبئی کی پولیس پر بنائی جانے والی کہانیوں کو بڑے شوق اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دبنگ پولیس افسر فلمی انداز میں عوامی ہیرو کی طرح منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ اخبارات میں کالے شیشے والی عینکوں کےساتھ تصاویر چھپتی ہیں۔ میڈیا چینلوں میںاپنے پیچھے ہٹے کٹے

باوردی پولیس اہلکاروں اور آس پاس تصاویر بنانے والے اور بغیر جوابات والے سوال پوچھنے والے صحافیوں کے جھرمٹ میں برق رفتاری سے چلتے ہوئے اسے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور پھر ایک عالی شان گاڑی میں اس کے سوار ہوتے ہی دروازہ بند ہوتا ہے اور گاڑی رش کو چیرتی ہوئی فراٹے بھرتی ہوئی روانہ ہوجاتی ہے۔ ممبئی کی ” فلمی پولیس “” کی حقیقت دیکھنے کےلئے ممبئی کی پولیس کو دیکھنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن شہر قائد کراچی میں ایسی پولیس اور ایسے پولیس افسران سچ مچ میں پائے جاتے رہے ہیں۔ ایسے پولیس افسر کے ساتھ ” دبنگ ” لکھنا اب اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ دور کیوں جاتے ہیں ۔ سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو ہی لے لیجئے ۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہےکہ کبھی کسی خودکش حملے میں ان کے بال بال بچ جانے اور حملہ آوروں کے مارے جانے کی خبرآتی تھی تو کبھی کسی سیاسی جماعت کی ایما پر انھیں عہدے سے ہٹائے جانے اور پھر بحال ہونے کی خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بنتی تھی۔ پوری یک جہتی اور یکطرفگی کے ساتھ اس ” دبنگ پولیس افسر” کی اخلاقی اور معاشرتی حمایت کی جاتی تھی۔ پھر وقت نے پلٹی ماری۔ اور یہی دبنگ پولیس افسر ایک پختون نوجوان نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قاتل کہلایا۔ مفرور کہلایا۔ سیاسی آشیر باد لینے والا کہلایا ۔جعلی مقابلوں میں لوگوں کو ٹھکانے لگانے والا کہلایا۔ اورجعلی خود کش حملوں سے ٹوپی ڈرامے رچانے والا کہلایا۔ لیکن رائو انوار اس کھیل کی شروعات کرنے والے نہیں ہیں۔ اس کی ابتدا نوے کی دہائی میں چودھری اسلم نامی ایک پولیس افسر سے ہوئی۔ نامور مضمون نگار فرنود عالم اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں کہ چودھری اسلم علاقے میں وارد ہوتے تو کسی بھی پہلو سے نہیں لگتا کہ یہ ریاستی اہلکار ہیں۔ سفید

کاٹن، گھنی داڑھی، چوڑی چھاتی، کھلا گریبان،ایک ہاتھ میں سیگرٹ دوسرے میں ریوالور۔ ان کے ساتھ جو جھتہ آتا وہ بھی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا ایسا چلتا کہ جیسے ایس ایچ او نہیں، کسی ڈان کے پیچھے چل رہا ہو۔ دہشت گرد کون ہے، غلط کون ہے، گنہگار کون ہے، یہ سب فیصلے چوہدری اسلم خود کیا کرتے تھے۔ یہ فیصلہ وہ کھڑے کھلوتے کہیں بھی کر سکتے تھے۔ جہانگیرآباد کی وہ بڑھیا نہیں بھولتی، جو منہ اندھیرے ملت بیکری سے ناشتہ لے رہی تھی، پیچھے سے چوہدری اسلم آن دھمکے۔ گاڑی کا سیاہ شیشہ اتار کر خاتون کو آواز دی “اماں، بیٹے کو سمجھا لو، ضائع ہوگیا تو پھر رونا مت”۔ بڑھیا پہ کپکپی طاری ہوئی، وہیں ہاتھ جوڑ لیے۔ چوہدری اسلم نے شیشہ واپس چڑھایا، گاڑی یوں فراٹے بھر کے گزرگئی جیسے سنجے دت کی کسی ایکشن مووی کا سین شوٹ ہورہا ہو۔ ہم کمسن تھے۔ ہمیں چوہدری اسلم کی بارعب شخصیت تو بھاتی ہی تھی، مگر ان کے کردار کے بھی ہم معترف تھے۔ کیونکہ ایم کیوایم کو ہم ہر بدی کا محور سمجھتے تھے۔اردو بولنے والوں سے نفرت تو نہیں تھی، مگر ان کے مارے جانے والوں کا دکھ اس طرح محسوس کرنے سے محروم رکھے گئے تھے جس طرح ایک پختون کا دکھ محسوس کرتے تھے۔ ہمارے بڑے، جو دماغی طور پر ہمارے ہم سن ہی تھے، ہمیں اپنے رویے سے یہ بات تعلیم کرتے تھے کہ جو شخص آپ کی نظر میں غلط راہ پر ہے، اس کا انجام کسی کے بھی ہاتھوں ہوجائے تو سجدہ شکر بجا لانا چاہیئے۔ کتنی مائیں ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے سوتے ہوئے بچے اٹھا کر لے جائے گئے، آج تک وہ نہیں جانتیں کہ وہ کہاں دفنائے گئے ہیں۔ وہ مجرم بھی اگر تھے تو کیا اس انجام کے

حقدار تھے؟جب ایم کیو ایم کے کارکن اور اردو بولنے والے ماورائے عدالت قتل کیے جا رہے تھے، سب خوش تھے۔ پہلے بھی یہیں کہیں لکھا تھا کہ علمائے کرام نماز جمعہ میں چوہدری اسلم کی حفاظت کی دعا کرتے۔ بے شمار مشائخ تھے جنہوں نے چوہدری اسلم صاحب کو رد بلا کے تعویذ دے رکھے تھے۔ تادم ِ مرگ چوہدری صاحب کے بازو پر ایک تعویذ بندھا ہوا تھا۔ اس کا مقصد دشمن کا نشانہ خطا کرنا تھا۔ مگر ملازم ملازم ہوتا ہے اور وقت پھر وقت ہوتا ہے۔ ملازم حکم کا پابند ہے اور وقت کا کام گزر جانا ہے۔ وقت بدل گیا، حکام بدل گئے، ہدف بدل گیا۔ چوہدری اسلم بدلے نہ ان کا کردار بدلا۔اب ایم کیو ایم تخت نشیں تھی اور مذہبی انتہا پسند نشانے پر تھے۔ یہی چوہدری اسلم اسی انداز و ادا کے ساتھ پختون آبادیوں میں جانے لگے جس انداز و ادا کے ساتھ وہ عثمانیہ سوسائٹی، رضویہ سوسائٹی، الحسن، مسلم لیگ کوارٹر، جہانگیرآباد اور پاک کالونی جاتے تھے۔ ایسے کاروباری پختونوں پرعرصہ حیات تنگ کیا گیا، جن کے سر پہ پگڑی یا ہاتھ میں تسبیح تھی۔ لوگ بنامِ طالبان ماوارئے عدالت قتل کیے جانے لگے۔ اگر وہ دہشت گرد تھے بھی تو چوہدری صاحب کو کس نے اختیار دیا کہ وہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور خود ہی منصف بن جائیں؟حالات یہ ہوگئے کہ جن مشائخ نے تعویذ دیے تھے، انہی مشائخ کو چوہدری صاحب کے اہلکاروں نے گھسیٹا۔ جو دعائیں دیا کرتے تھے وہ اب جھولی پھیلا کر خدا کو پکارتے رہے۔ جو پختون تب خاموش تھے، وہ اب چیختے تھے، مگر ایک چیخ اردو بولنے والوں کے علاقوں تک نہ پہنچی۔ چوہدری اسلم پھر مبینہ طورپرانہی کے ہاتھوں مارے گئے، جنہوں نے چوہدری اسلم کو کراچی کا ٹیپو سلطان قرار دے رکھا تھا۔ ایس پی چوہدری اسلم کے جوتے میں اب ایس پی راؤ انوار نے پاؤں دے رکھا ہے۔ راؤ انوار تو کمال کرتے ہیں۔ ایک دینی مدرسے کے قتل ہونے والے دو نوجوان طلبا کی خون میں لت پت تصویراخبارات میں شائع ہوئی۔ بتایا گیا کہ راؤ انوار کہتے ہیں یہ دو بچے

پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ جبکہ تصویر میں دونوں طلبا کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں بندھے ہوئے تھے۔جن عدالتوں کو صاف پانی کی فکر لاحق ہوگئی ہے، وہ تصویر سامنے رکھ کر ایس پی راؤ انوار سے خونِ ناحق کی وضاحت نہیں مانگتیں۔ یہ عجیب صورت حال ہے کہ ایک کاروباری شہری کو نامعلوم افراد کی طرف سے بھتے اور تاوان کی پرچیاں ملتی ہیں۔ پرچیوں اور دھمکیوں سے تنگ آئے اسی شہری سے متعلق ایک روز پتہ چلتا ہے کہ یہ طالبان کا ساتھی ہے یا پھر ایم کیو ایم لندن کا سپاری گیر ساتھی ہے۔ آپ اردو بولتے ہوں، مونچھیں گھنی اور گری ہوئی ہوں، مکس پتی پان چباتے ہوں، رنگ تھوڑا گہرا ہو تو آپ کو لندن کا ساتھی بنانا کیا مشکل؟ آپ پشتو بولتے ہوں، پھر آپ داڑھی پگڑی رکھتے ہوں، داڑھی پگڑی نہ بھی ہو مگر تعلق وزیرستان سے ہو، نام کے ساتھ محسود لگا ہو تو آپ کو طالبان کا ساتھی بنانا کیا مشکل؟ یہ مسائل کب جنم لیتے ہیں؟ تب جنم لیتے ہیں جب مخالف فریق ماورائے عدالت اقدام کا شکار ہو اور ہم “کچھ کیا ہو گا تبھی تو مارا یا اٹھایا ہے” کا راگ الاپتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ اس ماورائے عدالت اقدام کو جواز بخشتا ہے جس کا شکار آنے والے دنوں میں ہم بھی ہو سکتے ہیں۔ جب ہم ہوتے ہیں تو احساس ہوتا ہےکہ یہ جبر ناقابل برداشت ہے۔ پھر جب ہم پکارتے ہیں تو مخالف فریق سے “کچھ تو کیا ہی ہو گا” والا جواز سننے کو ملتا ہے۔ ہمارے اس “کچھ تو کیا ہو گا” والے رویے نے افسران کو نجی عدالتیں لگانے کی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ کراچی میں جہادیوں کے اڈے کہاں ہیں، کون نہیں جانتا؟ کس کو خبر نہیں کہ طالبان کہاں قیام کرتے ہیں۔ گلشن اقبال سخی حسن اور موسمیات پر قبضے کی زمینوں پر قائم جہادی مراکز پر کوئی چھاپہ نہیں مار سکتا۔ البتہ سہراب گوٹھ ، سعید آباد، قصبہ، بنارس ، منگو پیر اور میٹروپول سے نقیب محسود کی طرح جب چاہا جس کو اٹھا لیا اور پولیس مقابلے میں مار دیا۔ مسئلے کا حل اس کے سوا کوئی نہیں کہ ذات برادری، زبان اور قبیلے سے بالا تر ہوکر اُن عدالتوں کے خلاف سیاسی مزاحمت کی جائے جو سرکاری اہل کاروں نے اپنے گھروں میں لگا رکھی ہیں۔ پشتونوں کو آفتاب حسین کا درد محسوس کرنا ہوگا۔ اردو بولنے والوں کو نقیب حسین کی معصوم بچیوں کے سر پہ ہاتھ رکھنا ہوگا۔ ورنہ کسی بھی نقیب کی ماں کا یہ سوال ہم بے معنی کردیں گے کہ نقیب محسود کو کس نے مارا؟

FOLLOW US