اس رات زور کی گرج چمک تھی ۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ آسمانی بجلی کی وجہ سے رات کی تاریکی اپنے بدلتے ہوئے رنگوں سے خوف کا منظر پیدا کررہی تھی۔ مجھے آفس سے نکلے 20سے 25منٹ ہو چکے تھے۔ گھر سے فون پر فون آرہے تھے۔ میسج پر میسج آرہے تھے ۔ جلدی پہنچو موسم خراب ہورہا ہے۔ کبھی بہن کی کال آرہی تھی، کبھی بیوی فون کررہی تھی۔
کبھی بھائی کا فون آرہا تھا۔ بمشکل تیز ہوا کے دبائو سے سنبھلتے ہوئے ایک طرف موٹر سائیکل روکی اور فون اٹینڈ کیا ۔ بتایا کہ راستے میں ہوں ۔دس منٹ میں پہنچ جائوں گا۔ پھر بھی اصرار کیا گیا کہ اس سے بھی پہلے پہنچنے کی کوشش کرو۔ امی ابو پریشان ہو رہے ہیں۔ میں نے جلدی پہنچنے کی ایک اور یقین دہانی کرا کر فون بند کیا اور گئیر لگا کر ریس دی ۔ بجلی کی خوفناک کڑک نے تو میرے اندر بھی خوف پیدا کر دیا تھا اس پر یہ بھی فکر ہورہی تھی کہ میری وجہ سے گھر کے پانچ لوگ پریشان ہورہے ہیں مجھے جلدی پہنچنا چاہیے۔ ہائی وے سے موٹر سائیکل اس لمبے راستے کی طرف موڑ دی جو کم از کم چار کلومیٹر کی مسافت کے بعد میرے گھر کی گلی کے نزدیک سے مڑ کر آگے جاتا تھا۔ یہ تسلی ہوئی کہ چلو ہائی وے سے اپنے راستے پر تو ہوا۔ بارش ہو بھی گئی تو زیادہ نہیں بھیگنا پڑے گا۔ ہوا تھی کہ تھم ہی نہیں رہی تھی۔ آسمانی بجلی تو باقاعدہ ایک فوٹو سیشن کی طرح اپنی جل بجھ دکھا رہی تھی۔ میں کھیتوں کے قریب سے گزر رہا تھا کہ یکا یک ایک بجلی کا ایک بھرپور فلش پڑا اور مجھے کااپنے بائیں جانب ایک چار دیواری کے اندر کچھ نظر آیا۔ میں نے غور سے دیکھا تو یہ کچھ قبریں تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس کی قبریں تھیں۔ لیکن یہ طے تھا کہ یہ انسانوں کی قبریں تھیں۔ اچانک مجھے ایک عجیب و غریب خیال آیا۔ ایک ایسا بااثر اور طاقتور خیال کہ اس خوفناک گھڑی میں بھی میں نے موٹر سائیکل روکی اور ان قبروں کو دیکھنا شروع کر
دیا۔ سوچ نے ایک عجیب رخ اختیار کیا ۔ یہ جو قبریں ہیں۔ ان میں انسان سورہے ہوں گے۔ میرے جیسے انسان۔ ہوسکتا ہے مجھ سے زیادہ خوبصورت ، صحت مند اور دولت مند انسان تھے یہ۔ لازمی ہے کہ ان کے بھی ماں با پ ہوں گے۔ بیوی بچے اور بہن بھائی ہوں گے۔ کیاان کے بارے میں بھی کوئی سوچ رہا ہوگا کہ اس قدر خراب موسم ہے ۔ ان کی خبر لی جائے۔ یہ اپنی قبر میں آرام سے بھی ہیں یا نہیں۔ کہیں ان کو موسم کی ہولناکی سے ڈر تو نہیں لگ رہا ۔ کہیں ایسا نہ ہو بارش سے پانی رس کر ان کی قبروں میں داخل ہوجائے۔ میری فکر کرنے والے پانچ لوگ گھر پر موجود ہیں ۔ ان کی فکر کون کر رہا ہے۔ پھر یہ سوچ کر میرا جسم کانپنا شروع ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اہل خانہ ان کی فکریں بھلا بیٹھے ہوں۔ وہیں کھڑے کھڑے مجھے یہ بھی خیال آیا کہ میری نانی ، نانا، دادی اور دادا بھی تو گزر چکے ہیں۔ ایک ماموں اور ایک خالہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔مجھے تو شاید ہی کبھی ان کا خیال آتاہو۔یہ احساس میرے اندر پختہ ہوتا گیاکہ اپنی زندگی میں یہ لوگ جو بھی تھے، جیسے بھی تھے، اپنوں کو جتنے بھی پیارے تھے۔ ان کے جتنے بھی رشتہ دار تھے آج یہ لوگ بالکل اکیلے ہیں۔ آج کوئی بھی ا ن کے پاس نہیں ہے۔ بجلی کی اس چمک نے ایک پل میں مجھے زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کی جھلک دکھا دی۔ یہ تو بارش کا موسم تھا۔ جلادینے والی چلچلاتی دھوپ کا موسم بھی تو آتا ہے۔ جما دینے والی سردی بھی تو آتی ہی ہے۔ کالی ڈرائونی راتیں بھی تو آتی ہیں۔ تب بھی یہ سب اکیلے ہوں گے ۔ ایک چھوٹی سی قبر۔ نہ کروٹ لینے کی جگہ، نہ اٹھ
کربیٹھنے کی جگہ، بس لیٹے رہتے ہوں گے۔ میں زندہ ہوں ، بوریت محسوس کرتا ہوں تو اٹھ کر چہل قدمی کر لیتا ہوں۔ یہ تو ایسا بھی نہیں کر سکتے۔میں اکیلا ہوتا ہوں تو گھبراہٹ دور کرنے کےلئے کسی سے مل لیتا ہوں ۔ یہ کسی سے مل بھی نہیں سکتے ۔ میرے پاس کوئی بھی نہ ہو تو جیب سے موبائل فون نکال کر کسی دوست یار سے بات کرکے وقت گزار لیتا ہوں ۔ ان کو تو اس کی بھی قدرت حاصل نہیں۔ توفیق ہو تو گرمی کی شدت میں انسان گھر میں اے سی چلا لے۔ نہیں تو پنکھا اور روم کولر تو سب کے گھروں میں ہوتے ہیں۔ وہ جن کے گھروں میں بجلی کی سہولت بھی نہیں وہ کمرے کی کھڑکی کھول کر ہی تازہ ہوا لے لیتے ہو ں گے ۔ قبر میں تو ایسا بھی کچھ ممکن نہیں۔ تنہائی میں انسان کسی کو اپنے پاس بلا لیتا ہے کہ آئو کچھ ہفتے ، کچھ دن ، کچھ گھنٹے میرے ساتھ گزار و۔ اس مختصر سی جگہ پر تو کوئی چند لمحوں کےلئے بھی آنے کو بھی تیار نہیں ہوگا شاید میرے قریبی رشتے بھی قبر میں مجھے کمپنی دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ کوئی مجبوری کوئی مصلحت کوئی رکاوٹ بتا دیں گے کہ مجھے ابھی اور جینا ہے۔ مجھے کچھ کام کرنے ہیں۔ میری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ میں نے پہلے کبھی
تمھیںناں نہیں کی لیکن آج ایسا کرنامیرے لئے ممکن نہیں۔سردی آئی تو کمبل اوڑھ لیا۔ ہیٹر چلا لیا۔ کچھ گر م مشروبات پی لیے۔ قبر میں تو ایسی کوئی بھی سہولت میسر نہیں ہو گی۔مجھ میں کچھ کمانے کی لگن ہے۔ کچھ خواب ہیں۔ کچھ دولت ہے جو مجھے جمع کرنی ہے۔ اس کےلئے کپڑوں میں جیب ہے۔ گھر میں الماری ہے۔ بینکوں میں کھاتے ہیں۔ دولت کی ایک امیدہمیشہ قائم رہتی ہے۔ ان سب لوگوں میں تو ایسی کوئی امید بھی باقی نہیں ہو گی ۔ قبر میں تو دولت بھی نہیں جاسکتی ۔جاتی بھی تو کس کام کی ہوتی ۔ سب سوالات ایک دم دماغ سے کوندتے چلے گئے۔ پھر جوابات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس نے دنیا میں بھیجا ۔ اس نے واپس بلا لیا۔ کیوں بھیجا تھا ۔ کچھ تو مقصد تھا جس کے لئے بھیجا تھا ۔ ایسے ہی بھیجنا ہوتا تو کوئی چرند پرند ، جانور اور پیڑ پودا بنا کر بھی تو بھیج سکتا تھا۔ واپس بلانے کے واضح پیغام کے ساتھ بھیجا ۔ ایک بار مرنے کے بعد ہمیشہ کےلئے جی اٹھنے کا کہہ کر بھیجا تھا۔ تمھارا دین کون سا ہے ۔تمھارا رب کون ہےکہ سوالوں کے جواب تیار کرکے آنے کے لئے بھیجا ۔کیا ان سب لوگوں سے یہ سب سوالات پوچھے جا رہے ہوں گے ۔ ان سب نے کیا جوابات دیے ہوں گے ۔ کل مجھے تو بھی اسی طرح یہاں نہیں تو کسی اور جگہ کسی اور قبرستان جا کر لیٹنا ہے۔ہائے کتنی خوفناک حقیقت ہے کہ مجھے بھی اسی طرح ایک بند قبر میں لیٹنا ہے۔ میں نے کون سی تیاری کر رکھی ہے۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ میں نے کیوں نہیں سوچا کبھی اس بات کو۔ شاید اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میں بوڑھا ہو کر مروں گا۔ کئی جوان بھی تو مر جاتے
ہیں۔ جوان تو جوان کئی بچے بھی مر جاتے ہیں اور کئی شیر خوار بھی۔ پھر اس سوال کا جواب آیا ۔کسی نے بتایا تھا کہ دو چیزیں ہی قبر میں کام آتی ہیں۔عبادات اور نیک اعمال۔ وہ کہا ں ہیں میرے پاس۔ نماز جمعہ کےلئے دھکیل کرگھر سے بھیجا جاتا ہوں۔ قرآن کریم کو کھولے ہوئے عرصہ بیت گیا۔ اس کی ہدایات کو سمجھنا اور عمل کرنا تو دور کی بات۔میں نے ایم اے تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ظاہر ہے میں نے 16سال کئی کتابوں کو کھنگالا ہوگا ۔ ان کے موضوعات کا جامع مطالعہ کیا ہوگا ۔ تب جا کر ان کے امتحان میں کامیاب ہوا ہوں گا ۔ اب تو میں وہ کتابیں پڑھا بھی سکتا ہوں۔ لیکن ایک وہ کتاب جو میری پیدائش سے بھی پہلے سے میرے گھر میں موجود ہے۔ اس کو تومیں نے کبھی comprehned کیا ہی نہیں۔ کبھی تحقیقاتی مطالعہ کیا ہی نہیں۔ گویا کبھی پڑھاہی نہیں تو دوسروں کو کیا بتائوں کہ اس میں کیا ہے۔ چند سو صفحات ہی تو تھے۔ کہاں 16سالوں میں سینکڑوں کتابیں اور کہاں چند سو صفحات پر مبنی وہ ایک ہی کتاب جسے پڑھنا میری ترجیح ہی نہیں رہی ۔ میرا لیپ ٹاپ اور موبائل فون دونوں انڈین گانوں اور فلموں سے بھرے ہوئے ہیں۔ بچپن سے سنتا آرہا ہوں کہ موسیقی دین اسلام میں حرام ہے۔اسلام تو تصاویر بنانے سے بھی منع کر تا ہے۔ ایک ہی نشست میں درجن بھر سیلفیاں نہ بنوا لوں تو چین نہیں ملتا۔ بینک میں رکھوائی گئی رقم پر منافع مل رہا ہے۔ دھڑلے سے لے رہا ہوں ۔ کوئی کہہ دے کہ ایسا منافع جائز نہیں تو فٹ سے جواب دیتا ہوں کہ ناجائز تو اور بھی بہت سارے کام ہیں۔تین گھنٹے کی فلم دیکھ کر اللہ کو
ناراض کرنےسے بہتر تھا کہ تین گھنٹے عبادت کرکے اسے راضی کیا جاتا۔ شادی بیاہوں پر ڈھول ، ڈھماکے، ہوائی فائرنگ ، پٹاخوں اور نوٹ لٹانے جیسے فضول اخراجات سے کسی غریب کی مدد کی جاسکتی تھی۔ لیکن نہیں کی ۔ کسی نے روکا تو نہیں تھا بس پھر بھی نہیں کی۔وہ سب تو گناہوں کے کھاتے میں چلا گیا ۔ ثواب کےلئے کیا ہے۔ یہ سب تو برائیوں میں شامل ہوتا ہے۔ نیکی کےلئے کیا ہے میرے پاس۔ کچھ بھی تو نہیں۔ اور میں نے سنا ہے کہ ایک ایک نیکی کی بھیک ماں بیٹے سے اور شوہر بیوی سے مانگے گا۔ توبہ یا اللہ میری توبہ کیسا نفسا نفسی کا عالم ہو گا وہ ۔ وہ رشتے جو گھر بیٹھ کر صرف ایک خراب موسم میں میرے لئے فکر مند ہورہے ہیں اس روز اتنے خود غرض ہو جائیں گے۔ اور وہ یوم حساب تو بہت بعد میںہو گا۔ پہلے تو نہ جانے کب تک اس بند قبر میں رہنا پڑے گا۔ کئی سال یا پھر سینکڑوں سال ، ہزاروں یا پھر لاکھو ں سال۔ جیسے پچھلے ہزاروں لاکھوں سالوں سے انسان قبروں میں پڑے ہیں۔ لاکھوں سال، ہزاروں سال کتنے زیادہ ہوتے ہیں۔ زندگی تو اتنی لمبی نہیں ہوتی ۔ اب تو کوئی سو سال بھی نہیں جیتا ۔ اگر لاکھوں میں سے کوئی ایک آدمی سو سال کی عمر پالے تو اسے ایک حیران کن اور دلچسپ وعجیب خبر کہاجاتا ہے۔ گویا صرف سو سال جینے والا آدمی بھی ایک عجیب خبر بن جاتا ہے۔ ویسے بھی ایسا آدمی یا عورت جو خود سو سال جی بھی لے اور اس کے ماں باپ ، بہن بھائی اورشریک حیات دنیا سے چلا جائے تو ایسے آدمی
کو عجیب ہی کہناچاہیے ۔روزانہ ساڑھے تین لاکھ لوگ مررہے ہیں۔ کیا ایسے ہی مر رہے ہیں۔ نام کا سہی مسلمان تو ہوں۔ کئی تو کافر بھی مر رہے ہیں۔ روزانہ خبر یں سننے کو ملتی ہیں۔ اٹلی میں کئی سیاح کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گئے۔ امریکہ میں فائرنگ سے درجنو ں افراد ہلاک ہو گئے۔ بھارت میں گرمی سے سینکڑوں ہلاکتیں ہو گئیں۔ روس میں قیامت خیز سردی سے مرنے والوں کی تعداد درجنوں ہوگئی۔ جاپان میں زلزلے سے کئی اموات واقع ہو گئیں۔ چین میں سیلاب سے سینکڑوں لوگ ہلاک اور ہزاروں لاپتہ ہو گئے۔ یہ سارے کے سارے نہیں تو ان میں سے زیادہ تر غیر مسلم ہوتے ہوں گے ۔ مطلب کہ یہ جہنم میں چلے جاتے ہوں گے ۔ ہمیشہ کی آگ میں۔ کبھی ختم نہ ہونے والی آگ میں۔ استغفر اللہ ۔استغفر اللہ۔شکر ہے میں تو مسلمان ہوں ۔ لیکن کیسے ۔ صرف اس لئے کہ میرے والدین مسلمان ہیں۔ میں نسل در نسل مسلمان ہوں۔ کیا یہ سب کافی ہوگا مجھے ان غیر مسلموں سے الگ کرنے کےلئے۔ صرف کلمہ پڑھ کر علامتی طور پر خود کو مسلمانوں میں شامل کرنے سے میں مسلمان رہوں گا۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کئی گانوں اور فلموں کا شوق نہ رکھتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کئی پٹاخے فائرنگ بھی نہ کرتے ہوں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کئی غربا اور مساکین کی مدد بھی مجھ
سے بڑھ کر تے ہوں ۔ ممکن ہے ان میں سے کئی اپنے کسی گناہ پر ندامت اور پشیمانی محسوس کرتے ہوں۔ اگر اعمال میں یہ مجھ سے بہتر ہوئے تو کیا محض ان کو جدی پشتی کافر اورمجھے جدی پشتی مسلمان ہونے کی وجہ سے جنت میں بھیجنا انصاف ہوسکتا ہے۔اور ناانصافی تو اللہ پاک کبھی کرتے ہی نہیں۔بھائیو! میں جانتا ہوں کہ میں نے اس تحریر میں آپ کو پریوں اور شہزادیوں کی مزے کی کہانی نہیںسنائی۔ میرے اس کالم میں کسی راجہ اور رانی کی رومانوی کہانی نہیں تھی۔ یہ کوئی جاسوسی یا سسپنس طرح کا سنسنی اور لطافت سے بھرپور ناول نہیں تھا۔ کیونکہ یہ سب جھوٹی کہانیاں ہوتی ہیں۔ اور جو کچھ میں نے کہا یہی دنیا اور اس کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ پھر بھی یقین نہ آئے تو خو د تجربہ کر لیجئے کہ آپ کسی حسین وادی کی سیر کرنے چلے جائیں تو جاتے ہوئے سفر بہت بارونق اور پرمسرت لگے گا۔ دل میں بھی شادمانی ہوگی ۔ اور واپسی پر دل مژمردہ اور بوجھل ہو گا کہ یہ وقت کیسے ختم ہو گیا۔ کل سے پھر سے ڈیوٹی پر جانا ہے۔ سکول کالج اور یونیورسٹی جانا ہے۔ مشکل امتحان سے گزرنا ہے۔ دنیا کی پوری زندگی ہی شاید ایسی ہی ہے۔آپ اپنی پسند
کی کوئی چیز ہی لے لیجئے ۔ کچھ ہی عرصے میں دل بھر جائے گا ۔ پھر نئی چیز لیں گے اس سے بھی دل بھر جائے گا ۔ چیزوں کی رغبت جلدی ختم ہوجاتی ہے۔ کبھی انسان ایسا نہیں سوچتا کہ اب مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ مسلسل پیاس اور حوس رہتی ہے۔ شاید دنیا کا مال اسی چیز کا نام ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم کسی ایسے سفر پر جائیں کہ چھٹیاں ختم ہونے کا ڈر ہی نہ ہو۔ وادیوں کی خوبصورتی کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جائے۔ خوشبوئوں ، ذائقوں ،رنگوں اور نظاروں سے دل بھرنے ہی نہ پائے۔ جنت اسی چیز کا نام ہے۔ لیکن اس کےلئے شب کی بچی کھچی نیند قربان کرکے فجر کی نماز کےلئے اٹھنا ہوگا۔ کام کی تھکاوٹ کے باوجود نماز ظہر کےلئے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ بیچ کی نماز (نماز عصر ) کی پابندی یقینی بنانی ہو گی۔ سورج ڈھلتے ہی مسجد جا کر نماز مغرب اداکرنا ہو گی۔ اور نیند کا غلبہ ہونے کے باوجود جسم کو اپنے تابع کرکے نماز عشا کےلئے کھڑا ہونا ہوگا۔ لیکن بڑے ثواب کےلئے اور بڑے اجر کے لئے اپنے رب کے حضور پیشی کچھ مشکل تو نہیں ۔ اور یوں بھی دیکھا جائے تو کیا سعادت ہے کہ میرا رب مجھے توانائی دیتا ہے کہ میں اس کے سامنے جا کھڑا ہوتا ہوں۔ اپنی عاقبت مانگتا ہوں اور اپنی بخشش مانگتا ہوں۔ بہت سوں کو اللہ نے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ وہ اس کے سامنے کھڑے ہوسکیں ۔اور اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ وہی بند قبر میں سردی گرمی کی شدت ، خوف حساس، سوالوں کے جواب کی بجائے خاموشی اور پھر آخر میں ہمیشہ کی آگ۔ میں نے اس حقیقت کو آپ تک پہنچا کر اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے۔شاید اس کے عوض اللہ میرے گناہوں کو بخش دے ۔ میری مغفرت فرما دے ۔ آپ میرے پیغام کو آگے پہنچا کر ایک صدقہ جاریہ کی طرح ثواب کے حصے دار بنیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو باکردار مسلمان بننے اور اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونےکی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین