لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پیش ہو کر موقف اپنایا کہ میرابیان چیف جسٹس سے متعلق ایک شکوہ تھامگر سیاسی مخالفین نے کردار کشی شروع کر دی تاہم عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف قانون کی حکمرانی اور بالادستی کی بات کرتے ہیں، ہم نے تحریری جواب مانگا تھا
زبانی جواب نہیں چاہیے۔ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے وزیر داخلہ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال ہائیکورٹ کے 3رکنی بنچ کے سامنے پیش ہو گئے۔ اس موقع پر عدالت میں اور اس کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی وزیر نے عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف بیان دیا۔ملک کے اعلی اور معتبر ادارے کے ججز کے بارے میں نازیبا الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی تھی کہ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔سماعت کے دوران احسن اقبال کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل فاضل جج صاحبان کے روبرو اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف قانون کی حکمرانی اور بالادستی کی بات کرتے ہیں، ہم نے ان کا تحریری جواب مانگا تھا زبانی جواب نہیں چاہیے۔جس پر احسن اقبال کے وکیل نے کہا کہ مجھے مناسب وقت چاہیے جواب تیار کرکے عدالت میں جمع کرادوں گا۔بعد ازاں عدالت کی اجازت پر احسن اقبال نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ گزشتہ پیشی پر پیش نہیں ہوسکا، ایک جنونی شخص نے مجھ پر حملہ کیا جس سے زخمی ہوگیا تھا، مجھے ایک معجزے سے دوبارہ زندگی ملی،اسی لئے خدا کا شکر ادا کرنے عمرہ ادائیگی کے لئے گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھنے والا سیاسی کارکن ہوں،عدالیہ کی توہین خیال میں تھی نہ کبھی کریں گے ۔چیف جسٹس سب کے چیف جسٹس ہیں ، میں نے آج تک ایسا کچھ نہیں کہا جس سے عدلیہ کے وقارکو ٹھیس پہنچے، میرابیان چیف جسٹس سے متعلق ایک شکوہ تھامگر سیاسی مخالفین نے کردار کشی شروع کر دی ۔جس پر فاضل عدالت نے احسن اقبال سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت پانچ جون تک ملتوی کردی۔عدالت میں پیشی سے قبل وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد سے ملاقات کی، ملاقات میں انہوں نے ایڈوکیٹ جنرل سے لاہور ہائیکورٹ میں زیرسماعت کیس پر مشاورت کی۔









