پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما صداقت علی عباسی نے سیاست اور پارٹی سےعلیحدگی کا اعلان کردیا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں صداقت علی عباسی نے سیاست اور پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کا واقعہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ذہن سازی کا نتیجہ تھا۔ صداقت عباسی نے کہا کہ ’یہ بات تو پچھلے سال سوا سال سے تھی، ہماری پارٹی کا ایک گروپ تھا جس میں شیریں مزاری صاحبہ، مراد سعید صاحب، شہباز گل صاحب،جب بھی کوئی میٹنگ ہوتی تھی تو وہ بہت زیادہ ایکسٹریم سے زیادہ کان صاحب کو باتیں بتاتے تھے
جو ہم سب کو تھوڑا عجیب لگتا تھا، اور اس کے بعد خان صاحب کا بھی جو ایک سال کا بیانیہ تھا وہ انتہائی ایک ایکسٹریم پہ اداروں کے خلاف فوج کے خلاف تھا اور اس کا ایک امپیکٹ ظاہر ہے 9 مئی کو جگہ جگہ پر آیا، اس کی وجہ وہ بیانیہ ہی تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ یہی تھا کہ مقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے، 7 مئی کو ایک زوم میٹنگ ہوئی، جو بشریٰ بی بی کی ایڈوائس پر رکھی گئی، میٹنگ میں سب اپنے اپنے مشورے دیا کرتے تھے، 7 مئی کو میٹنگ میں اہداف طے کرلیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’خان صاحب نے کہا کہ نکلیں لوگ تو ایسی بلڈنگ کے باہر جائیں، اور اگر جہاں زیادہ لوگ اکٹھے ہوجائیں وہ اندر جائیں توڑ پھوڑ کریں تاکہ انتشار ہو اور ایک پیغام جائے کہ ہمارا مقابلہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہے، ان کو ایک دفعہ پچھاڑنے کی بات ہے پھر عمران خان کی سیاست میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی‘۔
7 مئی کو جو میٹنگ ہوئی اس میں بشریٰ بی بی کا کیا کردار تھا؟ اس سوال کے جواب میں صداقت عباسی نے کہا کہ ’7 مئی کو ڈسکشن ہوئی کہ اگر عمران خان گرفتار ہوتے ہیں تو ری ایکٹ کرنا ہے بڑی تعداد میں نکلنا ہے، پورے ملک میں انتشار ہوجائے گا پھر ایک امپریشن بنے گا، ادارے پریشر میں آئیں گے اور پھر کوئی بات چیت ہوگی اور عمران خان صاحب ان کو ایک کھلا راستہ ملے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک جنرل ڈسکشن ہوئی تھی، جیسے کہ آپس میں بات ڈسکس ہوتی ہے، میٹنگ میں ڈائریکٹ تو نہیں ہوئی تھی بات، لیکن ہمیں اپنے سرکل سے پتا چلا کہ بشریٰ بی بی میٹنگ رکھوائی تھی‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد ذیلی قیادت نے کہا لیاقت باغ اکٹھے ہوجائیں، مظاہرین پہلے میٹرو بس کے اسٹیشن پر حملہ کرنے گئے، جس پر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کردی، 7 مئی کو میٹنگ میں طے ہوا اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ہوتی تو ردعمل دینا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی چاہ رہے تھے کہ بہت بڑا ری ایکشن آئے جس سے ادارہ پریشر میں آجائے، عمران خان کا بیانیہ مزاحمت کے بعد مفاہمت کا تھا، آج ملک کی بڑی جماعت مشکلات میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب لانگ مارچ آرہا تھا تو وہ چاہ رہے تھے آرمی چیف وہ (عاصم منیر) نہ بنے کوئی اور بنے، میری سمجھ میں یہ ہے کہ عمران خان چاہ رہے تھے بہت بڑا ری ایکشن آئے کہ ادارہ جو ہے خاص کر فوج کا ادارہ وہ پریشر میں آجائے، اور پریشر میں آکر کوئی ڈیل ہو اور پھر ایک لحاظ سے ہمارا۔۔۔ پھر ڈسکشن بھی ہوتی تھی، جیسے پہلے مریم نے کہا تھا پہلے مزاحمت ہوگی پھر مفاہمت ہوگی، تو مزاحمت کی بات تھی، مزاحمت کا بیانیہ تھا اور اینڈ یہ تھا۔۔۔ مزاحمت تو ہوئی نہیں پھر اس مزاحمت میں ہمارے ملک کے اداروں کا امیج خراب ہوا‘۔