اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ ایکٹ کیس میں جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ معاملہ آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ دیکھ سکتی ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ میں اپنے پہلے سوال پر دوبارہ آتی ہوں،یہی قانون اپیل کا حق بھی دیتا ہے فل کورٹ کے خلاف اپیل کہاں جائے گی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ یہ سوال بہت اہم ہے میں بھی یہی سوچ رہا تھا، اپیل تو متاثرہ فریق نے کرنا ہوتی ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا اس کیس میں متاثرہ فریق کون ہوگا،
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمیں ایک دو الفاظ میں نہیں پھنسنا چاہئے پورا آئین دیکھنا چاہئے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ متاثرہ فریق وہی ہوتا ہے جیسے کوئی نقصان پہنچا ہو،آرٹیکل 10اے پڑھ لیں تاکہ ہماری یادداشت تازہ ہو جائے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 10اے میں سپریم کورٹ کا ذکر نہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمارے اپنے الگ الگ خیالات ہیں آپ آگے چلیں،آپ نے ہمیں مطمئن کرنا ہے ہم نے آپ کو نہیں۔ قبل ازیں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا،یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کیلئے ہے، قانون کے ذریعے تمام اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گئے ہیں،یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ملک میں کافی کچھ غیرآئینی ہو رہا ہے، سب آرٹیکل 184(3)کے دائرہ کار میں نہیں آتا؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کا اپنی آئینی حدود میں رہنا عوامی مفاد کے زمرے میں آتا ہے؟آئین اور عوامی مفاد ایک ہی سکے کے دورخ ہیں،جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ آرٹیکل 10اے پڑھ دیں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آرٹیکل 10اے میں انفرادی حق کی بات کی گئی ہے، سپریم کورٹ کے حق کی نہیں، آپ نے ہمیں قائل کرنا ہے ہم نے آپ کو نہیں۔