اسلام آباد : کمسن ملازمہ تشدد کیس میں ملزمہ کا بیان منظر عام پر آگیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزمہ تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ شامل تفتیش ہوگئی ہیں، تاہم ملزمہ جج کی اہلیہ نے خصوصی ٹیم کے سامنے صحت جرم سے انکار کردیا، اس حوالے سے ملزمہ نے موقف اپنایا کہ بچی ہمارے گھر پر ملازمہ نہیں تھی اور نہ ہی کام کرتی تھی۔ جج کی اہلیہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بچی پر کوئی تشدد نہیں کیا اسے سکن الرجی تھی، بچی کے سر پر چوٹ کیسے لگی اس کا ہمیں نہیں معلوم ہے،
امداد کے طور پر بچی کے والدین کو اب تک ساٹھ ہزار روپے بھیجے تھے، پیسے اپنے شوہر سول جج عاصم حفیظ کے موبائل ایزی پیسہ سے بھیجے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ اسپیشل جے آئی ٹی نے ملزمہ سے تحریری جواب طلب کرلیا جب کہ ملزمہ سومیہ عاصم ملازمہ تشدد کیس میں عبوری ضمانت پر ہے۔ بتاتے چلیں کہ تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ جنرل ہسپتال میں زیر علاج ہے، جہاں اس کی طبیعت میں مزید بہتری آنے لگی ہے، سربراہ میڈیکل بورڈ پروفیسر ڈاکٹر جودت سلیم نے کہا ہے کہ رضوانہ کی طبیعت میں بہتری پر آکسیجن کا استعمال کم کر دیا ہے، لڑکی بات کرنی لگی ہے اور تین وقت کھانا کھا رہی ہے۔سربراہ میڈیکل بورڈ کا کہنا ہے کہ رضوانہ کی حالات آہستہ آہستہ خطرے سے باہر آ رہی ہے، اس کی صحت میں مزید بہتری آنے پر آکسیجن اتار دی جائے گی، رضوانہ کے پلیٹ لیٹس کی تعداد 1 لاکھ پانچ ہزار ہوگئی اور بلڈ میں انفکیشن بھی کم ہو گیا ہے، طبیعت مزید سنبھلنے پر رضوانہ کے بازو کی سرجری کی جائے گی۔
ادھر سول جج کے گھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی لڑکی کی والدہ نے انکشاف کیا ہے کہ جج صاحب نے فون پر کہا میری نوکری کا سوال ہے، مہربانی کرو یہیں چپ کر جاؤ، 14 سال کی رضوانہ 7 ماہ سے جج کے گھر پر کام کر رہی تھی جسے ماہانہ 10 ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی، بیٹی کو مختار وڑائچ نامی شخص کے ذریعے نوکری پر لگوایا تھا۔ شمیم بی بی نے بتایا کہ بیٹی سے 2 مرتبہ ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی، فون پر گھر کی مالکن بتاتی تھیں کہ لڑکی گھر پر اچھی طرح رہ رہی ہے، باجی بتاتی تھیں کہ جج صاحب کوئی چیز لاتے تو پہلے رضوانہ کو کھلاتے ہیں اور پھر اپنے بچوں کو دیتے ہیں، بیٹی سے فون پر زیادہ بات نہ کیا کرو بچی اداس ہو جاتی ہے۔