اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے بیک ڈور مذاکرات ہوئے مگر کوئی نتیجہ نظر نہیں آرہا، مجھے پورا یقین ہے یہ الیکشن نہیں کروائیں گے، جمعرات یا جمعہ کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کروں گا،مجھے افسوس ہے کہ ہماری عدلیہ نے شہباز گل پر تشدد کے حوالے سے ازخود نوٹس نہیں لیا اگر ایسا ہوتا تو شاید اعظم کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا ۔ ہفتہ کے روز اسلام آباد میں سینیٹر اعظم سواتی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں مذاکرات انتخابات کے لیے اہمیت ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے یہ الیکشن نہیں کروائیں گے اور میں جمعے کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کروں گا کہ ہم کب نکلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مارچ باقی مارچ سے مختلف ہوگا، ہمیں پورا تجربہ ۳ہے لیکن اس بار مختلف چیز ہے کہ قوم اس مارچ کے لیے بے تاب ہے، میں اپنی منصوبہ بندی سے چل رہا ہوں لیکن قوم بے تاب ہے کہ کب نکلیں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارا مارچ پرتشدد نہیں ہوگا بلکہ لوگ لطف اندوز ہوں گے اور ہر طبقے کے شہری شامل ہوں گے کیونکہ یہ احتجاج ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کروں گا، جمعرات یا جمعے کو تاریخ کا اعلان کروں گا اور اس کے بعد تفصیلات سامنے آئیں گی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب سے ان لوگوں ایک سازش کے تحت ہمارے اوپر مسلط کیا گیا ہے میں دیکھ رہا ہوں انہوں نے میری پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام ہمارے ساتھ نکلے تو ان کو خوف آنا شروع ہوا کہ ہمارے ہوا کیا ہے، لوگ ہمارے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے اور ہمارے احتجاج پر انہوں نے جو ظلم کیا اس پر ہمیں اندازہ ہوا یہاں تو جمہوریت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔عمران خان نے کہا کہ رات کو لوگوں کے گھروں میں گھس کر مارا اور بعد میں پولیس سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہمیں پیچھے سے احکامات ملے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہمارے ساتھ جو حربے استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ سارے انتخابات میں جیت رہے تھے تو پاکستان میں اس طرح کی حرکتیں کبھی نہیں دیکھی۔ان کا کہنا تھا کہ سنا ہے دہشت گردوں سے ایسا کرتے تھے، بڑے مجرم جو بار بار جرم کرتے ہیں شاید ان کیساتھ کرتیہوں لیکن سیاسی لوگوں کے ساتھ ایسا ظلم کبھی نہیں دیکھا خاص طور پر جمہوری دور میں کبھی نہیں دیکھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ انہوں نے پہلے شہباز گل کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر میرے اوپر توہین عدالت بھی لگا لیکن میں نے اس لیے ردعمل دیا تھا کیونکہ مجھے پتا چلا تھا کہ شہباز گل کے ساتھ انہوں نے کیا کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی پر جو کچھ انہوں نے کیا، اس پر میں اعظم سواتی کے ساتھ ہر فورم پر جائیں گے، مجھے افسوس یہ ہے کہ ہماری عدلیہ نے اس پر ازخود نوٹس نہیں لیا، وہ زیرحراست تشدد ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ عدالت شاید اس پر ازخود نوٹس لیتی تو شاید اعظم سواتی کے ساتھ جو ہوا ہے وہ نہیں ہوتا۔ عمران خان نے کہا کہ جب اعظم سواتی کے گھر کے اندر آئے تو وارنٹ کے بغیر دیواریں پھلانگ کر آئے، جرم کیا تھا کہ کسی بڑے آدمی پر تنقید کی، کون سا ملک اس کی اجازت دیتا ہے کہ ایک ٹوئٹ کی تنقید پر یہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سب سے خوف ناک چیز یہ ہے کہ انہوں نے ان کو کسی اور کے حوالے کردیا تھا وہ لوگ کون تھے، میں چاہتا ہوں کہ چیف جسٹس ایف آئی اے کو بلائے اور پوچھے کہ کس کے حوالے سے کیا گیا تھا جنہوں نے پکڑ کر ننگا کرکے ان کو مارا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا یہاں ایسے لوگ ہیں جن کے لیے پاکستان کا کوئی قانون نہیں اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کیا وہ جو مرضی چاہیں اس ملک میں کرسکیں اور اگر آپ لوگوں کو یہ کرنے کی اجازت دیتے تو ملک بنانا ری پبلک بن گیا۔ ًعمران خان نے کہا کہ اس سے کیا قوم اداروں کی عزت کرے گی، نفرتیں بڑھیں گی، یہاں ایسے نامعلوم افراد ہیں، وہ جو مرضی کریں ، ان کا نام لیتے ہوئے اور پوچھتے ہوئے سب ڈرتے ہیں، سب کو ڈر لگا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے لڑکوں نے بتایا، پنجاب میں ہماری حکومت ہے، کسی نے سوشل میڈیا میں ٹوئٹ کیا تو اس اٹھا کر پھینٹا لگاکر اگلے دن گھر میں لے آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں، یہ ملک کو فائدہ نہیں پہنچا رہے ہیں بلکہ ملک کے دشمن ہیں، ملک کو تباہ کر رہے ہیں، ان حرکتوں سے نہ کسی ادارے کی عزت بڑھتی ہے نہ اس ملک کے اندر کسی قسم کی جمہوریت آگے بڑھتی ہے، لوگوں ک آزادی رائے بند کرکے کسی کو کبھی عزت نہیں ملی۔ اس موقع پر اعظم سواتی نے کہا کہ آج اس جمہوری دور کے اندر ایک سینیٹر کو خواہ اس نے کتنا بڑا ظلم کیا ہو اس کو ماورا قانون اور ماورائے آئین گرفتار کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں 17 سال سے سینیٹر ہوں اور پی ٹی آئی کی سینیٹ میں پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہے، کتنی کمیٹیوں کا سربراہ رہا ہوں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی کمیٹی کا بھی چیئرمین ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس کیس نہیں لیتی اور ان لوگوں کو جنہوں نے دوران حراست تشدد کیا اور جس طریقے سے میڈیا کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ان کے کپٹرے نکالے’۔انہوں نے کہا کہ ‘میں ان لوگوں کو بے نقاب کروں گا جو دو گھنٹوں کے لیے لے گئے، تشدد کیا اور پھر ملک کی جمہوریت، پارلیمنٹ اور سینیٹ کے کپڑے نکالے’۔
سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب میں آپ کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہ شعلے کہیں آپ کی عدلیہ تک نہ پہنچیں اور کل کسی جج کے کپڑے نہ نکالے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ‘بنیادی انسانی قانون ہے جس کے تحت آپ از خود نوٹس لیتے ہیں، آج اعظم سواتی نہیں بول رہا بلکہ آج پارلیمنٹ کا موجودہ ادنیٰ سا سینیٹر بول رہا ہے’۔چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اگر آپ اس کا تحفظ نہیں کرسکتے تو آپ کو اس ملک کا قانون اور آئین اس کرسی پر براجمان ہونے کا کوئی حق نہیں دیتا’۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب ساری دنیا انصاف اور قانون کے جتنے فورمز ہیں میں وہاں پر یہ لے کر جاؤں گا اور میں امید کرتا ہوں پارلیمنٹ کے اس رکن کی آواز سنی جائے گی، صرف میں نہیں بلکہ میری تین پوتیاں بھی آپ کے دروازے پر آئیں گے اس لیے کہ اگر انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں عدالت کی جرم کی سزا قانون کے مطابق دے۔اعظم سواتی نے کہا کہ میں سپریم کورٹ جا رہا ہوں اور آپ کی موجودگی میں قانون اور آئین سے بالاتر ہو کر آپ کے انصاف کے در پر آؤں گا، یقین ہے کہ آپ کے انصاف کے دروازے جو آئین کے تحت بنیادی حق کے تحفظ کا 184،3 دیا گیا ہے، اس کے دروازے کھولیں گے۔