میرا اپنا ہی ایک برانڈ ہے ، مجھے برانڈڈ کپڑوں کی ضرورت نہیں، یہ کہنا تھا ڈاکٹر یاسمین راشد کا جو ایک نجی چینل کے لئے انٹرویو دے رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں اایک وقت ایسا آتا ہے جب آپ کو ان سب نمودو نمائش کی ضرورت نہیں رہتی، یہ سب چیزیں آپ کے کام کے آگے کچھ بھی نہیں ہوتی۔ مجھے صاف ستھرے اچھے کپڑے پسند ہیں لیکن میں یہ برانڈ کے چکر میں نہیں پڑتی۔ کبھی یہ نمائش کی عادت نہیں رہی۔ نہ ہی میرے بچوں یا شوہر نے اس کے لئے اصرار کیا۔مردانہ جوتے ان کی خاص پہچان ہیں، کیا تقریبات میں بھی یہی جوتے پہنتی ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے کچھ اس طرح دیا کہ میں کیونکہ میڈیکل کالج میں پڑھاتی رہی ہوں تومیں نے جب انگلینڈ سے اس کی ٹریننگ لی تو ہمیں سب سے پہلا سبق یہی پڑھایا گیا
کہ آپ کے جوتے سب سے آرام دہ ہونا چاہیے کیونکہ کھڑے ہوکر کلاس میں پڑھانا ہے تاکہ آپ کمفرٹیبل رہیں تو جب سے یہی عادت ہے۔ میرے اسٹوڈنٹس ہنسا کرتے تھے کہ ڈاکٹر یاسمین جوگرز والی۔ان کے شوہر راشد صاحب سے ان کی شادی کو 50 سال ہوگئے ہیں، ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ وہ بھی بڑی سادہ طبیعت کے آدمی ہیں انہوں نے کبھی مجھ سے بننے سنورنے کی فرمائش نہیں کی۔ نہ کبھی سادہ رہنے پر اعتراض کیا۔ بہوئیں کبھی کبھار کہہ دیتی ہیں کہ اماں آج تو سفید کپڑے نہ پہنیں، کوئی رنگین کپڑے پہن لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن جوائن کیا تو سارا دن مردوں کے درمیان پھرنا پڑتا تھا تو بس سوچ لیا کہ جتنا سادہ رہا جائے وہ بہتر ہے۔پسندیدہ گلوکار میں استاد امانت علی بے انتہا پسند ہیں، انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو پسندیدہ غزل ہے۔ میری اماں بھی بہت اچھا گاتی تھیں۔ خود گانے کا شوق نہیں کیونکہ میری تو آواز بھی مردانہ ہوگئی ہے۔۔ فیض کی شاعری پسند ہے۔ سائنس فکشن موویز بہت زیادہ پسند ہیں۔ اسٹار ٹریک، ٹرمینیٹر،اور دوسری سائنس فکشن موویز کے لئے میں لازمی وقت نکالتی ہوں۔ ریٹائر ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اللہ نے جب تک زندگی دی ہے میں بندوں کی خدمت کرتی رہوں گی۔