اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کو گرفتار کرلیا گیا، انہیں گرفتار کرنے اینٹی کرپشن پنجاب وفاقی دارالحکومت پہنچی تھی۔ شیریں مزاری کس کو کیس میں گرفتار کیا گیا ۔ اس حوالے سے سینئر صحافی جاوید چوہدری نےکچھ عرصہ پہلے لکھا تھا کہ لکھا تھا کہ شیریں مزاری کے والد سردار عاشق محمود خان مزاری پنجاب کے آخری ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے بڑے فیوڈل لارڈ تھے‘ یہ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک تھے‘
تحریک انصاف کی رہنماشیریں مزاری کو گرفتار کرلیا گیا، ویڈیو سامنے آ گئی
ذوالفقار علی بھٹو نے جب لینڈ ریفارمز شروع کیں اورفیوڈل لارڈز سے زمینیں لے کر مزارعوں اورہاریوں میں تقسیم کر دیں تو سردار عاشق مزاری کی زمین بھی تقسیم ہو گئی‘پاکستان لینڈ ریفارمز کو پتا چلا موضع کچہ میانوالی کی چالیس ہزار کنال زمین کی جمع بندی اور پرت سرکار دونوں ملی بھگت سے غائب کر دی گئی ہیں‘یہ کام اس زمانے میں بہت آسان تھا‘ فیوڈلز اپنے علاقے میں پٹواری اور تحصیل دار اپنی مرضی کا لگوا لیتے تھے اور سردار کو جب بھی ریکارڈ کی ضرورت پڑتی تھی تو اہلکار پورا محکمہ مال اٹھا کر سائیں کے گھرلے آتے تھے‘ 1971ء میں بھی یہی ہوا‘ محکمہ مال کے اہلکار عاشق مزاری کا ریکارڈ بھی ان کے ڈیرے پر لے آئے اور سردار نے محکمہ مال کے ساتھ مل کر جعلی ریکارڈ بنا دیا ‘ اس پر ڈپٹی کمشنر کی جعلی مہریں تک لگا دیں‘ اصل ریکارڈ کا صندوق سردار کے وفادار پٹواری کے گھر رکھوا دیا گیا‘ اس بندوبست کا مقصد چھاپے سے بچنا تھا‘ بھٹو صاحب نے اس زمانے میں ہر فیوڈل لارڈ کے ڈیرے پر اپنے جاسوس چھوڑ رکھے تھے‘ جاسوس کو جوں ہی گڑ بڑ کی بھنک پڑتی تھی ‘ پولیس اگلے دن چھاپہ مار کر اصل ریکارڈ حاصل کر لیتی تھی لہٰذا سردار نے چھاپے کے خوف سے یہ ریکارڈ پٹواری کے پاس رکھوا دیا تھا‘ پٹواری بھی خوف زدہ تھا‘ اس نے اپنے نائب قاصد کو اعتماد میں لیا اور صندوق اس کے گھر میں چھپا دیا ‘بہرحال قصہ مختصر 40 ہزار کنال زمین کا نیا ریکارڈ بنایاگیا‘ جعلی کمپنیاں بنائی گئیں اور وہ زمینیں ان کمپنیوں کے نام منتقل ہو گئیں‘ مزاری صاحب کے خلاف کیس شروع ہوا اور فیڈرل لینڈ کمیشن نے 1975ء میں کمپنیوں کو جعلی قرار دے دیا‘ مزاری فیملی کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم جاری ہو گیا اور یہ مقدمہ 50 سال چلتا رہا‘عاشق مزاری کا دعویٰ تھا زمینیں اگر محکمہ مال کی ملکیت ہیں تو یہ ریکارڈ لے کر آئے‘ عدالت محکمہ مال کو ریکارڈ لانے کا حکم دیتی تھی اور اصل ریکارڈ غائب تھا‘ زمینیں اس دوران اربوں روپے کی بھی ہو گئیں اور تقسیم بھی ہوتی رہیں اور فروخت بھی‘ سردار عاشق مزاری کا انتقال ہو گیا
اور یوں شیریں مزاری‘ ان کے بھائی سردار ولی محمد مزاری اور ان کی والدہ درشہوار مزاری اس پراپرٹی کے ’’بینی فیشری‘‘ ہو گئے‘ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں شیریں مزاری کا پورا نام شیریں مہرالنساء مزاری ہے‘ نادرا کے ریکارڈ میں ان کی تاریخ پیدائش 6 جولائی 1951ء ہے جب کہ گوگل میں ان کی ڈیٹ آف برتھ 26 اپریل 1966ء آتی ہے‘ یہ 15 سال کا فرق کیوں ہے؟تفتیش کاروں کا دعویٰ ہے شیریں مزاری کے وکیل اس فرق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر تے ہیں’’ یہ مسئلہ جب اٹھا تھا میری مؤکلہ کی عمر اس وقت صرف پانچ سال تھی‘یہ بچی تھیں‘ یہ ریکارڈ میں گڑ بڑ کیسے کر سکتی ہیں؟‘‘ لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کیوں کہ شیریں مزاری کی عمر اس وقت 20 سال تھی اور یہ عاقل اور بالغ بھی تھیں لہٰذا کمپنیاں بنانے اور زمینوں کی منتقلی میں ان کی رضامندی بھی شامل تھی‘ قصہ مزید مختصر یہ ایشو فیڈرل لینڈ کمیشن اور عدالتوں سے ہوتا ہوا اینٹی کرپشن پنجاب پہنچ گیا۔ہم کہانی کو مزید آگے بڑھاتے ہیں‘ مزاری فیملی کے خلاف تفتیش شروع ہوئی اوریہ چلتی رہی‘ اس دوران ریکارڈ غائب کرنے والا پٹواری گرداور ہوا‘ ریٹائر ہوا اور فوت ہو گیا‘ وہ نائب قاصد جس کے گھر میں اصل ریکارڈ کا صندوق تھا وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن کیس عدالتوں اور اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے درمیان کبھی اِدھر ہو جاتا تھا اور کبھی اُدھر‘ شیریں مزاری 2008ء میں سیاست میں آگئیں‘ 2018ء میںپی ٹی آئی کی حکومت آئی تو شہزاد اکبر کیس میں ان کی سپورٹ کرنے لگے‘ ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس شہزاد اکبر کے دست راست تھے لہٰذا روجھان کی زمینوں کی تفتیش الماریوں میں بند کر دی گئی لیکن آپ بدقسمتی دیکھیے‘ شہزاد اکبر کے بعد گوہر نفیس تبدیل ہو گئے اور ان کی جگہ رائے منظور جیسا دبنگ افسر آ گیا‘یہ شخص ایمان دار بھی ہے اور بے خوف بھی‘اس کے پروفائل میں درجنوں ہائی پروفائل کیس موجود ہیں‘بیوروکریسی میں رائے منظور کو عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے‘ یہ مار کھا کر بھی پیچھے نہیں ہٹتا لہٰذا ہر حکومت اس کے خلاف ہو جاتی ہے…