Sunday November 24, 2024

آقاکریمﷺنے ایک دن سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء سےپوچھا، فاطمہ! جانتی ہو میں نے آپ کا نام فاطمہ کیوں رکھا؟

سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی رفعت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے والد گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبع نور ہدایت ہیں۔آپ کے شوہر نامدار باب العلم ہیں۔ آپ کے بیٹے سرداران جنت ہیں،آپ کے انوار میں نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ گر ہے۔آپ کے رگ و ریشہ میں خون مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجزن ہے۔ آپ کی پوری زندگی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔کتب سیرت میں سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بہت سے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند کا تذکرہ

اس مضمون میں کیا جائے گا جس سے قارئین کے دلوں میں سیدہ کائنات کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت میں نہ صرف اضافہ ہوگابلکہ سیدہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہا کی عظمت و مقام مرتبہ سے بھی شناسائی ہوگی۔ذیل میں سیدہ کائنات کے اسمائے گرامی ان کی وجہ تسمیہ اور پس منظر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسوہ بتول رضی اللہ تعالی عنہپر احادیث کی روشنی میں تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہالفظ فاطمہ باب فاعلہ سے ہے جس کا معنی بالکل علیحدہ کردیا جانا ہے۔ لسان العرب کے مطابق اگر لکڑی کے ایک حصے کو کاٹ کر الگ کردیا جائےتو اسے تغطیم کہتے ہیں۔بزار، طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ! جانتی ہو میں نے آپ کا نام فاطمہ کیوں رکھا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ فرمادیجئے کہ ان کا نام فاطمہ کیوں رکھا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فاطمہ اور ان کی اولاد کو نار جہنم سے بالکل الگ کررکھا ہے‘‘۔(الاستیعاب، ج 2، ص 752)اس معانی میںحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سم بامسمی ہیں۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور آپ کی اولاد کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھنا اس امر کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کا عزوشرف اللہ کی بارگاہ میں بہت زیادہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو پیار سے فاطم کہہ کر پکارتے تھے۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کو فاطم کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔بتول رضی اللہ تعالی عنہاسیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بتول کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ معانی کے لحاظ سے یہ لفظ بتل سے نکلا ہےجس کا معنی سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو رہنا۔سورۃ مزمل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:واذکر اسم ربک وتبتل الیه تبتیلا. (المزمل:8)’’اے حبیب اپنے رب کا ذکر کیا کریں اور سب سے ٹوٹ کر‘‘۔احمد بن یحییٰ سے سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے متعلق پوچھا گیا

کہ ان کو بتول کیوں کہا جاتا ہے توانہوں نے جواب دیا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ اپنے وقت میں امت کی خواتین سے الگ تھلگ رہا کرتی تھیںاور عفت و پاکیزگی اور فضل و عبادات اور حسب و نسب کے شرف سے آپ کا ایک منفرد مقام تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس لئے بھی بتول کہا جاتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے آپ کو دنیا سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ (لسان العرب، ص:207)الزہراء رضی اللہ تعالی عنہسیدہ کائنات کو اکثر الزہراء کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جس کا معنی ہے سفید کلی۔ ابن الاعرابی نے اسے سفید نور کہا ہے۔ اسی طرح اس سے مراد دنیا کا حسن و جمال ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی والدہ سے سیدہ کائنات کے متعلق پوچھاتو انہوں نے جواب دیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایسے ماہتاب کی مانند تھیں کہ جو چودھویں رات میں ماہ تمام بن کر منور ہورہا ہو یا پھر اس آفتاب کی مانند تھیں جو کہ سفید بادلوں کی اوٹ سے نمودار ہورہا ہو۔آپ کا رنگ سفید تھا جس میں سرخی ظاہر ہوا کرتی تھی اور آپ کے بال سیاہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم4813)انہی خوبیوں کی وجہ سے آپ کو زہراء کے لقب سے جانا جاتا ہے۔الطاہرہ رضی اللہ تعالی عنہاسیدہ کائنات الطاہرہ کے لقب سے بھی جانی جاتی ہیں۔ جس کا مطلب پاکیزہ ہے۔

FOLLOW US