Wednesday November 27, 2024

قومی اسمبلی کاگزشتہ روز کااجلاس توکچھ بھی نہیں تھاآج کیاہونے والاہے ؟ہوشرباانکشاف

اسلام آباد(ویب ڈیسک) اپوزیشن کی سائیڈ لینے پر حکومتی ارکان نالاں جب کہ اپوزیشن وفاقی وزراء کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر برہم ہے۔نجی خبررساں ادارے کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس آج پھر ہنگامہ خیز ہونے کا امکان ہے، اور موجودہ صورتحال نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے لئے مشکل پیدا کردی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی نے گزشتہ اجلاس میں نازیبا زبان استعمال کرنے والے اراکین پارلیمنٹ پر اجلاس میں شرکت پر پابندی عائد کی تھی، جس کے بعد اپوزیشن کی سائیڈ لینے پر حکومتی ارکان نالاں ہیں اور وفاقی وزراء کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اپوزیشن برہم ہے۔گزشتہ روز معاملات کو درست سمت کی جانب لے جانے کے لئے حکومت کی طرف سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی،

جس کو اپوزیشن سے مذاکرات کرنے اور اسمبلی میں تعاون کے لئے تیار کرنے کا ہدف دیا گیا تھا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں رسمی مذاکرات بھی نہ ہونے کا امکان ہے، اور اپوزیشن کی طرف سے تاحال مذاکرات کی پیش کش کو قبول نہیں کیا گیا، جس کی بڑی وجہ خود اپوزیشن میں دو دھڑے بن جانا ہے۔اپوزیشن کے ایک دھڑے کے رہنما چار سے زائد وفاقی وزراء کے خلاف سپیکر کی جانب سے کارروائی کی منتظر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہ کئے جائیں، جو بھی مذاکرات ہوں گے پارلیمان کے اندر ہوں گے، حکومت بجٹ کے تین دن ضائع کرنے کے بعد کس منہ سے مذاکرات کی بات کر رہی ہے، حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر اجلاس کے دوران اپنے رویہ پر معذرت کرنا ہوگی۔اپوزیشن کے دوسرے دھڑے کا مؤقف ہے کہ اگر مذاکراتی کمیٹی بااختیار ہے تو پھر مذاکرات کئے جائیں تاکہ حل نکلے، جمہوریت کی خاطر اور نظام کو بچانے کے لئے مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہونے چاہیئے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ موجودہ کشیدہ صورتحال کے پیش نظر حکومت نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک مشارورتی اجلاس رکھا ہے، پارلیمانی پارٹی اجلاس کی صدارت خود وزیراعظم عمران خان کریں گے، جس میں حکومت ڈپٹی اسپیکر کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کرے گی، اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف اپوزیشن کی متوقع تحریک عدم اعتماد پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومتی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی پر پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے اعتراضات کا بھی امکان ہے۔

FOLLOW US