Thursday November 28, 2024

فوج غزہ کی پٹی کے محاذ پر کئی روز تک لڑائی جاری رکھنے کیلئے تیا رہے اسرائیلی آرمی چیف کا جنگ کو لمبے عرصے تک جاری رکھنے کا اعلان

تل ابیب/لندن: اسرائیلی آرمی چیف نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے محاذ پر کئی روز تک لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہے ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف اسرائیل اور حماس دونوں ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں دونوں نے اب تک کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے اپیلوں پرعمل درآمد نہیں کیا. قبل ازیں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ بھرپور طاقت کے ساتھ راکٹ حملوں کا جواب دیتے رہیں گے ان کا کہنا تھا کہ بمباری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس کی ضرورت ہو گی تاہم انہوں نے زور دیا کہ شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ اس محاذ آرائی کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ ہم پر حملہ کرنے والی جماعت ہے.

آرمی چیف کے بیان سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا کہ گذشتہ چند ایام کے دوران غزہ کی پٹی پر کی گئی بمباری میں حماس کو بھاری قیمت چکانے پرمجبور کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ اسرائیل کے پاس غزہ کی پٹی پر مزید حملوں کے لیے منصوبے موجود ہیں عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اسرائیل زمینی حملوں کے لیے تیاریاں کررہا ہے اور کسی بھی وقت صہیونی افواج بھاری جنگی سازوسامان کے ساتھ غزہ میں داخل ہوسکتی ہیں جو پہلے ہی سرحد پر پہنچایا جاچکا ہے. اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکت اور بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر پر حملے پر سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے انتونیو گوتریس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کے الشاتی کیمپ میں اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے دس افراد کی ہلاکت سمیت شہری ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر سیکرٹری جنرل نے شدید افسوس کا اظہار کیا ہے. بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انتونیو گوتریس غزہ شہر میں اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے بہت پریشان ہوئے ہیں جس میں متعدد بین الاقوامی میڈیا کے دفتروں کے علاوہ رہائشی اپارٹمنٹس بھی موجود تھے. بیان کے مطابق سیکرٹری جنرل نے تمام فریقوں کو یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ عام شہریوں اور میڈیا کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور ہر قیمت پر اس سے گریز کرنا چاہیے ادھر اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے جاری ہیں لندن میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے ہائیڈ پارک سے گزرتے ہوئے اسرائیلی سفارت خانے کی جانب مارچ کیا برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق تھوڑی تھوڑی دیر بعد فلسطینی پرچم کی مناسبت سے سرخ یا سبز رنگ کا دھواں چھوڑا جاتا اور مظاہرین نعرے بازی کرتے.

مظاہرین فلسطین کی آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے برطانوی حکومت سے مطالبہ کرتے رہے کہ فلسطینی افراد سے اسرائیل کے وحشیانہ سلوک کو روکنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے‘سپین کے شہر میڈرڈ میں بھی ہزاروں لوگ فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے تقریباً اڑھائی ہزار کے قریب نوجوانوں نے فلسطینی پرچم لپیٹ کر شہر کے مرکز کی جانب مارچ کیا.
مظاہرین اس موقع پر نعرے لگا رہے تھے کہ ”یہ جنگ نہیں بلکہ نسل کشی ہے“فلسطین سے تعلق رکھنے والی 37 سالہ عامرہ شیخ علی نے کہا کہ وہ ہمارا قتل عام کر رہے ہیں ہم21ویں صدی میں بھی ایسی صورتحال کا شکار ہیں پیرس میں بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا گیا جس پر پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی. پیرس کے حکام کی جانب سے لاﺅڈ سپیکروں پر اعلانات کیے جاتے رہے کہ مارچ غیر قانونی ہے مگر اس کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہر کے شمالی حصے میں جمع ہوئے فرانسیسی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے 23 سالہ نوجوان محمد نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنے لوگوں سے اظہارِ یکجہتی نہ کروں جبکہ میرے گاﺅں پر بمباری ہوتی رہے؟فرانس کے حکام نے4روزقبل اس مارچ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی کیونکہ حکام کو” نقص امن“ کا خدشہ تھا پیرس کی عدالت نے اس مارچ پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا. فرانس کے وزیرداخلہ جیرارڈ ڈارمینن نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو دیگر شہروں میں بھی ایسے مظاہروں اور مارچوں پر پابندی عائد کر دی جائے گی حکومتی ترجمان گیبریئل اتال نے کہا کہ ہم اپنی سڑکوں پر تشدد کے مناظر نہیں دیکھنا چاہتے ہم کسی تنازعے کو فرانسیسی سرزمین پر درآمد نہیں کرنا چاہتے ہم نہیں چاہتے کہ ہماری سڑکوں پر تشدد پھوٹ پڑے. فرانسیسی ادارے کے مطابق ہزاروں لوگوں نے مونٹیپیلیئر، تولو، اور بوردوا سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرے اور مارچ کیے جن میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا دوسری جانب غزہ میں جاری لڑائی کے دوران اسرائیل کے اندر بھی پرتشدد ہنگامے اور واقعات پھوٹ پڑے ہیں جن میں عرب اور اسرائیلی شہریوں کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا ہے اور پولیس تھانوں پر حملے بھی ہوئے ہیں. اسرائیل کی اندرونی صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلیوں کی طرف سے ملک میں بسنے والے عرب شہریوں اور عربوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر تشدد کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے. انہوں نے ملک میں جاری صورتحال کو ناقابل برداشت قرار دیا واضح رہے کہ اسرائیل کی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے ملک میں جاری ان پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے.

پولیس کے ترجمان مائیکی روزن فیلڈ نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں جس قسم کا نسلی تشدد دیکھنے میں آیا ہے یہ کئی دہائیوں سے دیکھنے میں نہیں آیا ہے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس طاقت کے استعمال میں اضافہ کر رہی ہے انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ شہروں میں جہاں انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی اسرائیل کی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی میں بسنے والے عربوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں فوج بھی تعینات کی جا سکتی ہے. دوسری جانب اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز نے شہر میں جاری بد امنی کی روک تھام کے لیے سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری طلب کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ 400 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے. اسرائیل کی آبادی میں 21 فیصد ایسے لوگ ہیں جو اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں دسمبر میں اسرائیل کے ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی 1.96 ملین آبادی اسرائیلی عربوں پر مشتمل ہے. 1948 کی جنگ میں لاکھوں عرب شہری اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے جبکہ اسرائیل میں رہ جانے والوں کو اسرائیل کی شہریت دے دی گئی جو اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں ان اسرائیلی عربوں کی 80 فیصد تعداد مسلمان ہے دیگر عرب اپنے آپ کو مسیحی یا دروز مذاہب کے پیروکار کہلاتے ہیں. ان میں سے اکثریت ایسے عربوں کی ہے جو اپنے آپ کو اسرائیل کے فلسطینی شہری کہلاتے ہیں اسرائیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے عرب شہری برابری کے سماجی اور سیاسی حقوق رکھتے ہیں. البتہ انھیں ضروری ملٹری سروس سے استثنیٰ حاصل ہے تاہم ان اسرائیلی عربوں کا موقف ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک روا رکھا جاتا ہے انھیں قانونی، ادارہ جاتی اور سماجی تعصبات کا سامنا رہتا ہے.

FOLLOW US