اسلام آباد : وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سعودی عرب میں قید 1100 پاکستانیوں کی جلد وطن واپسی کی نوید سنادی۔ تفصیلات کے مطابق شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب میں ہونے والے معاہدوں کے بعد سعودی عرب کی جیلوں میں موجود 1100 قیدیوں کی جلد پاکستان واپسی ہو گی، سعودی عرب سنگین جرائم میں قید پاکستانیوں کی واپسی کے لیے بھی تیار ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے امید ظاہر کی کہ اگر ایک ارب روپے کی امداد مل جائے تو چھوٹے جرمانوں کی وجہ سے سعودی جیلوں میں موجود سیکڑوں مزید قیدیوں کو بھی رہائی دلا سکتے ہیں ، تاہم سنگین کیسز کو علیحدہ سے ڈیل کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں وزیر داخلہ شیخ رشید نے پاکستانیوں کیلئے سعودی عرب میں بڑی تعداد میں نوکریوں کا عندیہ دے دیا ،
وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو 1 کروڑ افرادی قوت کی ضرورت ہے ، انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بذات خود وزیراعظم عمران خان کا استقبال کیا جو کہ ایک پیغام ہے۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون اور تعلقات کو منظم اور مربوط کرنے کے لیے ‘سعودی پاکستانی سپریم کوآرڈینیشن کونسل قائم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں ، اس سے قبل پاکستان کی کابینہ دو روز پہلے ہی اس کونسل کے قیام کی منظوری دے چکی ہے ، اس کونسل کا مقصد دونوں ممالک کے دو طرفہ تعاون کو بہتر اور ہموار کرنا ہے تاکہ فروری سنہ 2019 کے سعودی ولی عہد کے پاکستان کے دورے کے دوران جو سرمایہ کاری کے معاہدے طے پائے تھے ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر راساں ادارے سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق دونوں ملکوں کے نمائیندوں نے غیر قانونی منشیات، جدید نشہ آور ادویات اور ان کے کیمیائی عناصر کی سمگلنگ روکنے کے لیے ایک یاد داشت پر دستخط کیے ہیں ، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ملاقات کے دوران انہوں نے دونوں برادر ممالک کے مابین تعلقات کی گہرائی کا اعادہ کیا اور دوطرفہ تعاون اور کوآرڈینیشن کے پہلوؤں کو وسعت دینے اور تیز کرنے اور مختلف شعبوں میں ان کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا ، اس کے علاوہ فریقین نے علاقائی اور بین الاقوامی میدانوں میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دلچسپی کے امور پر ایک ایسے انداز میں تبادلہ خیال کیا جس سے سلامتی اور استحکام کی تائید اور توسیع میں مدد مل سکے۔