کراچی : جب سے جہانگیر ترین پر شوگر کمیشن کے حوالے سے کیس بنااور اس کے بعد منی لانڈرنگ کے کیسز بھی منظر عام پر آئے اور جہانگیر ترین نے میڈیا میں آ کر جس طرح سے عمران خان سے انصاف کی اپیل کی اسی دن سے حکومتی تختوں میں ہل چل شروع ہو گئی کیونکہ جہانگیر ترین گروپ نے کھل کر ترین کی حمایت کر ڈالی ا ور عمران خان صاحب کو یہ پیغام دیا کہ اگر جہانگیر ترین انہیں استعفیٰ دینے کا کہے گا تو وہ بلا جھجک استعفیٰ دے دیں گے۔ اگرچہ جہانگیر ترین نے ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کیااور بار بار اپنے پیغامات میں وزیراعظم عمران خان کو اپنے کیس پر خصوصی توجہ دینے کا کہاجس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات کی مگر اس گروپ میں جہانگیر ترین نہیں تھے
اور ان کی نمائندگی راجا ریاض نے کی تھی۔ میٹنگ میں کیا معامالات طے پائے وہ تو میڈیا کے ذریعے سب سامنے آ چکا ہے مگر اس سارے کیس کو مدنظر رکھا جائے تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہانگیر ترین ایک بڑی سیاسی قوت بن چکے ہیں اسی لیے اس قسم کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں وہ پی ٹی آئی پر بھی قبضہ جما سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے سینئر صحافی و اینکر پرسن کامران خان نے سوشل میڈیا سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا”جہانگیر خان ترین گروپ پاکستانی سیاست کی نئی ٹھوس حقیقت: 33 اراکین پارلیمنٹ بشمول 11 MNA پنجاب اسمبلی 22 اراکین چوتھی بڑی سیاسی قوت ہے ترین گروپ حمایت بنا مرکز پنجاب حکومت ڈھیر ہو جائے گی چند منٹوں میں، ترین گروپ عمران خان کلیدی ملاقات ہے،خان صاحب جوش نہیں ہوش سے کام لیں پلیز!“اس کا مطلب ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان صاحب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتے ہیں۔ کافی تعداد میں ایم پی اے اور چند وزیر مشیر بھی جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں اور ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جہانگیر ترین کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔مگر جو ملاقات ترین گروپ کے ساتھ وزیراعظم نے کی ہے اس کی روشنی میں نتائج آنا ابھی باقی ہیں آنے والے چند دن اہم ہیں کہ جہانگیر ترین کی اگلی پیشی یا پھر بجٹ آنے تک پی ٹی آئی حکومت کے لرزہ براندام ہونے کے خدشات واضح ہو جائیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔