واشنگٹن: امریکہ نے افغانستان سے11 ستمبر تک افواج نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے، امریکی صدر جوبائیڈن فوجوں کے انخلا سے متعلق کل اہم اعلان کریں گے، معاہدے کے تحت فوجوں کو یکم مئی سے پہلے افغانستان سے نکلنا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے رواں سال گیارہ ستمبر تک افغانستان سے تمام امریکی افواج نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ طالبان اور امریکا کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت امریکی افواج کو یکم مئی سے پہلے افغانستان سے نکلنا ہے۔ افغان طالبان نے معاہدے کے مطابق انخلا نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دے رکھی ہے۔ لیکن امریکا نے ستمبر میں فوجیں نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جو کہ معاہدے سے ہٹ کے ہے۔
اسی طرح ترک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں مسئلہ افغانستان پر کانفرنس 24 اپریل سے 4 مئی کو ہوگی۔ استنبول سمٹ میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے شریک ہوں گے۔ کانفرنس میں میں قطر اور اقوام متحدہ کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ایک آڈیو پیغام ارسال کیا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ اسلامی امارت (طالبان) منصوبے کے مطابق اس ہفتے ترکی میں ہونے والی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کانفرنس میں شرکت اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی امن تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور جب بھی غور کا عمل مکمل ہو گا، ہم اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔ ترجمان نے بعد میں آڈیو پیغام کو ایک واٹس ایپ گروپ میں بھی شیئر کیا ۔طالبان کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا تھا کہ ترکی امن کانفرنس میں شرکت اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی امن تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور جب بھی غور کا عمل مکمل ہو گا، ہم اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔
بلنکن کے مذکورہ امن منصوبے کے مسودے میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا اور آئین میں ترامیم کی تجویز شامل تھیں۔ اس میں ایک عبوری حکومت قائم کرنے کو بھی کہا گیا تھا جس کا نام ‘امن حکومت ہوگا۔ منصوبے کے مطابق ایک اسلامی مشاورتی کونسل بھی قائم ہوگی جو تمام قوانین کو اسلامی عقائد کے مطابق رکھنے کے حوالے سے تجاویز دینے کی ذمہ دار ہوگی۔
یہ بظاہر طالبان کو رعایت دینے کی کوشش ہے۔افغان صدر اشرف غنی، جو الگ تھلگ پڑتے جارہے ہیں، نے بھی اگلے چند ماہ کے دوران افغانستان میں انتخابات کے انعقاد تک ایک عبوری حکومت کے قیام کی بلنکن کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ لیکن طالبان نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اشرف غنی کی سربراہی والی کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز پر اپنے موقف کا ابھی اظہار نہیں کیا ہے۔