ٹانک (ویب ڈیسک) جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سرنڈر مولانا فضل الرحمان نہیں ،جنرل نیازی ہوا کرتا ہے، عمران خان کہتا مولانا فضل الرحما ن کو سرنڈر کرنا ہوگا، میں نے کہا سرنڈرکرنے والے تیرے اپنے قبیلے کے لوگ ہیں،کہتے فضل الرحمان کو جواب دینا ہوگا، لیکن ابھی تو تم میرے احتساب کے شکنجے میں ہو۔ انہوں نے ٹانک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک چلانے کیلئے اپنے کام پر نظر رکھنا دوسرے کاموں میں مداخلت نہ کرناہوگی، ملک اس طرح چلے گا۔ ورنہ پھر سمجھوتے کی سیاست ہوگی،
ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑے گا، قوم کو کمزورکرکے کہنا ملک میں امن ہے، نظام ٹھیک چل رہا ہے، یہ چیز ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردے گی، ہم سنجیدہ ہیں، ہم کسی کے دشمنی نہیں ہیں، لیکن ملک کسی کی ملکیت نہیں ہے، فرق اتنا ہے دنیا میں جہاں ڈکٹیٹر ہوگا، اس کوزمین سے دلچسپی ہوگی جہاں جمہوریت ہوگی اس کو عوا م سے دلچسپی ہوگی۔ آمرانہ قوت علاقوں پر قبضہ کرنے کا سوچتا ہے، لیکن جمہوریت میں عوام کی فلاح کو دیکھا جاتا ہے۔ آج ملک جام ہوچکا ہے ۔ اس وقت پاکستان کی سالانہ مجموعی ترقی کا تخمینہ صفرسے نیچے چلا گیا ہے، شاید اگلے دوسال بھی اسی پوزیشن میں رہے گا، اسٹیٹ بینک کہتا ہے تاریخ میں اس قدر معیشت نہیں گری، جب حکومت نااہل اور ناجائز ہو، اس کو رہنے کا کوئی حق نہیں، جو قوت بھی اس حکومت کو سہارا دے گی وہ بھی مجرم ہوگی۔ ملک مقدس ہے، سیاستدان، جنرل، بیوروکریٹ اور تاجر بعد میں ہیں، ملک ہوگا تو سب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے تسلیم کیا کہ ہمیں اسمبلیوں میں حلف نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم دباؤ قبول نہیں کرتے بلکہ دباؤ ڈالتے ہیں، کہتے فضل الرحمان کو احتساب دینا ہوگا، میں نے کہا ابھی تو تم میرے احتساب کے شکنجے میں ہو، مجھ سے کسی نے پوچھا کہ عمران خان کہتا ہے مولانا فضل الرحما ن کو سرنڈر کرنا ہوگا، میں نے کہا کہ سرنڈر جنرل نیازی ہوا کرتا ہے، مولانا فضل الرحمان سرنڈر نہیں کرتا۔
سرنڈر والے تیرے اپنے قبیلے کے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ملک کو کیسے چلانا ہے؟ 1973ء میں آئین بنا ہے، آئین کہتا ہے اسلام پاکستان کا مذہب ہے، اقتدار اور حاکمیت اسلام کے مطابق ہوگی۔ جب ہمارے اہداف اور آئین واضح ہے، پھر رکاوٹوں کو سمجھنا چاہیے، ہمیں اپنی سیاسی قوت کو بڑھانا ہوگا، آئین اور قانون سے تصاد م نہیں کرنا ، میں اپنے حق کو استعمال کرنا ہے۔ طاقت ور قوتوں کو کہنا ہے کہ آئین سے تجاوز تم کررہے ہو، قانون کو تم پامال کررہے ہم نہیں کرتے، آئین ہمارے سر کا تاج ہے، تم نے آئین کو پاؤں کے نیچے روندا ہے، ہم نے آئین کو حاکم تم نے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔یہ سودا نہیں چلے گا۔ میں نے جو حلف اٹھایا میں اس کا پابند ہوں، تم نے جو حلف اٹھایا ہے تم اس کے پابند ہو۔ فوج نے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا ہے۔اس سے نظام میں توازن بگڑ جاتا ہے۔ساری سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فورم پر ہیں، قیادت جے یوآئی ف کررہی ہے، ہم نے قوم کے اعتماد پر پورا اترنا ہے۔