لاہور (ویب ڈیسک) ذرا فون تو ملائو۔فون تو صبح سے ڈیڈ پڑا ہے۔اچھا لائٹ ہی جلا دو۔لوڈ شیڈنگ کا ٹائم ہے۔چلو چائے پیتے ہیں۔گیس بھی نہیں آ رہی۔شرم کرنی چاہیے۔وہ بھی نہیں آ رہی۔تو پھر آ کیا رہا ہے؟اگلا سال آ رہا ہے؟گھبرائو مت اگلا سال بھی پچھلے سالوں جیسا ہی ہو گا۔ نامور کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔تمہارے منہ میں خاک۔خاک بھی خالص نہیں ملتی۔ ٭٭٭٭وہ کون ہے؟گورا سا گھنگھریالے بالوں والا جس کی توند نکلی ہوئی ہے، ماتھے پر محراب بھی ہے۔حیرت ہے تم نہیں جانتے، بہت پہنچا ہوا راشی افسر ہے۔اور وہ جس نے وگ لگائی ہوئی ہے اور وحشیوں کی طرح کھائے جا رہا ہے۔
اچھا وہ گرے سوٹ والا۔ اس کی تو ’’بار‘‘ کا ماہانہ خرچ ہی لاکھوں میں ہے۔کرتا کیا ہے؟کنٹریکٹر ہے، ٹھیکے داری کرتا ہے۔کیا چاند ستارے سپلائی کرتا ہے؟ہاں ’’چاند‘‘ ’’ستاروں‘‘ کا بھی ٹھیکے دار ہے (ہنستے ہوئے) ٭٭٭٭ اور وہ عورت کون ہے؟ وہ کالی ساڑھی والی جس پر گولڈ سی پٹی ہے۔تم نے غور نہیں کیا۔کس بات پر؟اس کے سینڈل کی ایڑی 18کیرٹ گولڈ کی ہے۔لیکن یہ ہے کون؟اک سوشل بٹر فلائی جس کی پارٹیز کی دھوم ہے جہاں بڑے بڑے پارسا بھی ہاتھ باندھے پھرتے ہیں۔٭٭٭٭کچھ سنا تم نے؟کیاایوان بالا میں بھی بجلی غائب ہو گئی۔واہ کیا حکمت عملی ہے۔اس میں حکمت عملی کہاں سے آ گئی۔تمہیں سمجھ نہیں آئے گی۔تم کوشش تو کرو سمجھانے کی۔رہنے دو۔پلیز! مجھے ایجو کیٹ کرو۔یہ حکومت کا گوریلا ایکشن ہے۔ ہر طرف اندھیرا کر کے، اندھیر مچا کر خوشحالی کو اس طرح گھیریں گے جیسے سیاستدان ووٹر گھیرتا ہے۔ ٭٭٭٭اور وہ ٹوپی والے، با ریش نورانی چہرے والے جو آہستہ آہستہ ’’سِپ‘‘ کر رہے ہیں۔تم انہیں بھی نہیں جانتے، اکثر ٹی وی چینلز پر ہوتے ہیں۔عالم دین بھی ہیں، عالم دنیا بھی۔ ٭٭٭٭اور وہ جس نے ڈائمنڈ جڑا سونے کا بریسلٹ پہنا ہوا ہے، گلے میں بھی سونے کی زنجیر عدل پہنی ہوئی ہے۔یہ شہر کے سب سے بڑے قبضہ گروپ کا سرپرست ہے۔ کئی سیاستدان اس کے پے رول پر ہی سمجھو۔سلمان عالیشان کے بعد یہ دوسری شخصیت ہے جس کے بارے لوگ کہتے ہیں کہ جس زمین پر پائوں رکھ دے، وہ اس کی ہو جاتی ہے۔ یہ کسی کو انکار نہیں کرتا اور کوئی اس کو انکار نہیں کرتا۔٭