لاہور (ویب ڈیسک) اوپر شدید خشک سردی ‘ اندھیرا تھا‘ رات کا سناٹا تھا اور اس سناٹے‘ اس اندھیرے میں خشک کھردرے پتھروں پر چلتے لوگوں کے قدموں کی آوازیں تھیں‘ہم آہستہ آہستہ اس کوہ طور پر اوپر بڑھ رہے تھے جس کی اللہ تعالیٰ نے سورہ الطور اور التین میں قسم کھائی تھی‘ نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کوہ طور کے گرد صحرا سینا کی مقدس ریت تھی‘ہم 70 لوگ اس میں سانس لے رہے تھے‘ ہمارے آگے اور پیچھے درجنوں لوگ تھے‘ طور کا تقدس اور اس تقدس کے ساتھ بندھی داستانیں ہمیں اوپر اور اوپر اور پھر اس سے بھی اوپر اس جگہ لے جا رہی تھیں۔
جہاں حضرت موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے اور اس کلام کے دوران ایک رات حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے رب کو دیکھنے کی درخواست کر دی‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ موسیٰ تم مجھے دیکھنے کی تاب نہیں لا سکو گے لیکن حضرت موسیٰ ؑنے اصرار کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک تجلی پہاڑ پر گرا دی‘ پہاڑ چھوٹے چھوٹے پتھروں میں تقسیم ہو گیا‘ پہاڑ کا سبزہ‘ چرند اور پرند تمام مر گئے اور پھر یہ دوبارہ طور پر آباد نہ ہو سکے اور جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر اپنی پہلی کتاب توریت نازل فرمائی تھی اور پتھر کی دو تختیوں پر اپنے دس احکامات رقم کر کے زمین پر اتارے تھے۔یہ دس احکامات زمین پر قانون‘ آئین اور ضابطے کی ابتدا تھے‘ ہمیں اس طور کا تقدس آہستہ آہستہ پہاڑ کی چوٹی کی طرف کھینچ رہا تھا‘ میں سینٹ کیتھرائن کے قریب پہنچ کر رک گیا‘ میں تین بار طور پر جا چکا تھا‘ اس بار میرے گھٹنے میں درد تھا لہٰذا میں نے ساتھیوں کو رخصت کیا‘ ہم خیال اوپر چلے گئے اور میں واپس ہوٹل آ گیا لیکن میرا دل‘ وہ طور کی چوٹی کے ساتھ بندھا رہا‘ میں لیٹ کر طور کی صبح کا تصور بنتا رہا۔
صحرائے سینا اور کوہ طور یہ دونوں مصر کے ایشیائی حصے میں ہیں‘ آپ اگر نقشہ دیکھیں تو ریڈسی (بحیرہ احمر) غلیل کی وی کی طرح دو حصوں میں بہتا نظر آئے گا‘ غلیل کی یہ وی درمیان میں مثلث بناتی ہے اور یہ مثلث سینا کہلاتی ہے‘ مثلث کی نوک پر مصر کا سیاحتی شہر شرم الشیخ آباد ہے جب کہ مثلث کی بیس چار ملکوں اور بحیرہ روم سے جا ٹکراتی ہے‘ وہ چار ملک سعودی عرب‘ اردن‘ اسرائیل اور مصر ہیں‘ حضرت موسیٰ ؑ ریڈسی عبور کر کے اس مثلث میں داخل ہوئے تھے۔آپؑ مصر کے آج کے علاقے شرقیہ کے رہنے والے تھے‘ شرقیہ قاہرہ سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ آپ ؑ فرعون کے لے پالک صاحبزادے تھے‘ پرورش محل میں ہوئی تھی‘ آپؑ فرعون کے وارث بن رہے تھے لیکن پھر ایک قبطی قتل ہو گیا اور آپؑ سزا سے بچنے کے لیے اردن کی طرف ہجرت کر گئے‘ اردن اس وقت فرعون کی سلطنت میں شامل نہیں تھا‘ حضرت موسیٰ ؑ صحرا میں چلتے چلتے اردن کے علاقے مدائن پہنچ گئے‘ وہاں حضرت شعیب ؑاپنی دو صاحبزادیوں کے ساتھ رہتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد نرینہ سے نہیں نوازا تھا‘ حضرت موسیٰ ؑدس سال حضرت شعیب ؑ کے جانور چراتے رہے‘ حضرت شعیب ؑ نے اس خدمت کے عوض اپنی صاحبزادی صفورا بی بی آپؑ کے عقد میں دے دی‘ یورپ میں صفورا کے نام پر پرفیوم اور کاسمیٹک کا بہت بڑا برینڈ ہے‘ یہ برینڈ یہودی تاجر ڈومنیق مندونو نے 1969 میں بنایا تھا‘ حضرت موسیٰ ؑدس سال بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ مدائن سے
مصر کی طرف روانہ ہوئے۔آپؑ نے اس بار صحرائے سینا کا راستہ منتخب کیا‘ یہ صحرائے سینا میں کوہ طور کے قریب پہنچے تو شدید سردی کی لپیٹ میں آ گئے‘ آپؑ نے اپنے اہل خانہ کو میدان میں بٹھایا اور خود آگ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے‘ پہاڑ کی جڑ میں آگ دکھائی دی‘ آپ آگ کی طرف بڑھے‘ قریب پہنچے تو جھاڑیوں میں آگ دیکھی‘ آپ اور قریب آئے تو آواز آئی ‘ اے موسیٰ! تم اپنے جوتے اتار دو‘ تم اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو اور پھر یہاں سے نبوت کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ حضرت موسیٰ ؑکو نبوت مل گئی۔آپ کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکے بھائی حضرت ہارون ؑ کو بھی نبی بنا دیا‘ آپؑ کی زبان کی لکنت بھی ختم کر دی اور آپؑ کے عصا کو اژدھا اور ہاتھ کو چمک دار بھی بنا دیا گیا‘ حضرت موسیٰ ؑاللہ کے حکم پر مصر پہنچے‘ فرعون کو دعوت دی‘ فرعون کے جادوگروں اور ان کے سانپوں کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو کالی آندھی اور طاعون سے سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن دلوں کے زنگ آلودہ قفل نہ کھل سکے‘ آپؑ نے آخر میں بنی اسرائیل کو ساتھ لیا‘ اپنے عصا سے ریڈ سی کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور بنی اسرائیل کے ساتھ دوبارہ صحرائے سینا میں داخل ہو گئے جب کہ فرعون اپنی فوج سمیت ریڈسی میں غرق ہو گیا‘ آپؑ اپنی امت کے ساتھ کوہ طور کے گرد پناہ گزین ہو گئے۔امت وادی میں رہی اور آپؑ اللہ تعالیٰ کے احکامات لینے طور پر چلے گئے‘
آپؑ نے اس دوران طور پر چالیس دن کا اعتکاف کیا اوراللہ نے آپؑ کو توریت عنایت کر دی ‘ حضرت موسیٰ ؑ دس احکامات کی دو تختیاں لے کر نیچے تشریف لے آئے مگر بنی اسرائیل نے سونے کے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی تھی‘ بہرحال قصہ مزید مختصر بنی اسرائیل چالیس سال تک صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے یہاں تک کہ ان کے وجود سے چار سو سال کی غلامی کے اثرات ختم ہو گئے‘ اللہ نے ان کی دعا سن لی‘ انھیں صحرا سے نکلنے کا راستہ مل گیا اور یہ اردن پہنچ گئے‘ حضرت موسیٰ ؑ اردن میں کوہ نبو کے دامن میں انتقال فرما گئے‘ آپؑ کے بعد بنی اسرائیل حضرت یوشع بن نون ؑ کی قیادت میں طویل خواری کے بعد اسرائیل کے شہر جریکو پہنچ گئے یوں یہ قصہ ختم ہو گیا لیکن طور بنی اسرائیل کے لیے ہر دور میں مقدس رہا‘ یہ آج بھی مقدس ہے‘ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان تینوں طور کا احترام کرتے ہیں۔میں 100 ہم خیال لوگوں کے ساتھ دوسری بار مصر پہنچا‘ ہم نے تین دن قاہرہ اور سکندریہ میں گزارے اورپھر طور آ گئے‘ طور کا قصبہ شرم الشیخ سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ فوجی لحاظ سے حساس علاقہ ہے‘سینا میں اس وقت تین فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں‘ اسرائیلی فوج‘ مصری فوج اور اقوام متحدہ کی فوج‘ علاقے میں جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں چناںچہ سیاحتی بسیں باقاعدہ فوج اور خفیہ اداروں کی اجازت اور سیاحتی پولیس کی حفاظت میں یہاں پہنچتی ہیں‘ ہم راستے میں چھ چیک پوسٹوں سے گزرے
اور ہر چیک پوسٹ پر ہماری بسوں کا جائزہ لیا گیا‘ روانگی سے قبل ہماری بسوں کی سیکیورٹی کلیئرنس بھی ہوئی‘ ہم بہرحال گاؤں طور پہنچ گئے‘ یہ کوہ طور کے سائے میں چھوٹا سا سیاحتی مقام ہے۔علاقے میں سہولتوں کا فقدان ہے‘ ہوٹل بھی اچھے نہیں اور سیاحوں کو باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی‘ گاؤں میں دو سیاحتی اٹریکشنز ہیں‘ سینٹ کیتھرائن کا چرچ اور کوہ طور‘ سینٹ کیتھرائن چرچ عین اس جگہ بنا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ کو مخاطب کیا تھا‘ آپ اللہ کی قدرت ملاحظہ کیجیے حضرت موسیٰ ؑکو جس جھاڑی میں آگ دکھائی دی تھی وہ جھاڑی تین ہزار دو سو سال گزرنے کے باوجود آج تک قائم اور ہری بھری ہے‘ یہ جگہ برننگ بش (Burning Bush) کہلاتی ہے‘ جھاڑی کے گرد سینٹ کیتھرائن ہے اور اس میں نبی اکرمؐ سے منسوب ایک خط کا نقش بھی موجود ہے‘ ہم دوسری بار خط کی زیارت کے لیے مصر پہنچے‘ کوہ طور کی زیارت کا سفر رات بارہ بجے شروع ہوتا ہے‘ قافلے بارہ بجے پیدل روانہ ہوتے ہیں‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سیکیورٹی ہے‘ طور اسرائیل کی سرحد کے قریب واقع ہے‘ فوجیں الرٹ کھڑی ہیں۔اسرائیلی فوجی دن کے وقت طور پر نقل وحرکت دیکھ کر گولی چلا دیتے ہیں لہٰذا زائرین رات کے وقت جاتے ہیں‘ دوسری وجہ موسم ہے‘ طور خشک ‘بے آب وگیاہ پہاڑ ہے‘ دن کے وقت یہ تپ کر تنور بن جاتا ہے لہٰذا اس پر سفر ناممکن ہو جاتا ہے
اور آخری وجہ روایت ہے‘ حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور پر رات کے وقت پہنچتے تھے اور اللہ سے ہم کلام ہوتے تھے ‘ آپؑ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتے تھے فجر کے وقت مانگتے تھے۔صبح کی روشنی کے ساتھ پورا پہاڑ اپنے سرخ ہو جاتا ہے‘ دنیا میں اس نظارے کی کوئی نظیر نہیں ملتی چناںچہ لوگ رات کو سفر کر کے صبح صادق کے وقت چوٹی پر پہنچتے ہیں‘ فجر کا نظارہ کرتے ہیں اور سورج تپنے سے پہلے واپس آ جاتے ہیں‘ فوج نو بجے کے بعد کسی شخص کو پہاڑ پر نہیں رہنے دیتی‘ طور کی چوٹی پر ایک چھوٹی مسجد ہے‘ روایت کے مطابق حضرت موسیٰ ؑکو تورات اس مقام پر عنایت ہوئی تھی‘ مسجد کے نیچے وہ غار آج بھی موجود ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑنے تورات کے لیے اعتکاف فرمایا تھا‘ مسجد کے دائیں ہاتھ ایک قدیم چرچ ہے‘ یہ چرچ یہودی اور عیسائی دونوں عبادت کے لیے استعمال کرتے ہیں جب کہ چوٹی کے دائیں اور بائیں جانب انبیاء کرام کے درجنوں غار اور حجرے ہیں۔کوہ طور کا سفر انتہائی دشوار گزار ہوتاہے‘ یہ سیدھی چڑھائی ہے‘ پتھر تراش کر اور پتھروں کے اوپر پتھر رکھ کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں‘ رات کے وقت کھائیاں اور سیڑھیاں دکھائی نہیں دیتیں‘ سیاح دو تہائی حصہ اونٹوں پر طے کرتے ہیں اور جہاں اونٹ جواب دے جاتے ہیں وہاں ٹانگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ لوگ جوں جوں اوپر چڑھتے جاتے ہیں درجہ حرارت منفی ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ چوٹی پر ٹمپریچر منفی سات ہوتا ہے‘
ہم میں سے 20 لوگ شروع میں ہمت ہار گئے‘ 70 آگے بڑھے اور ان میں سے بھی چند راستے میں واپس آ گئے‘ دو شدید بیمار ہو گئے جب کہ باقی گرتے پڑتے چھ گھنٹوں میں اوپر پہنچے‘ یہ چھ گھنٹے اور یہ سفر زندگی کی مشکل ترین ہائیکنگ تھی‘ ٹانگیں‘ پھیپھڑے اور ہمت تینوں جواب دے گئے‘ ناک سے خون تک نکل آیا لیکن طور کی عقیدت تمام تکلیفوں پر غالب رہی اور ہم خیال بالآخر اس چوٹی پر پہنچ گئے جس پر تورات بھی اتری تھی اور اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ سے مخاطب بھی ہوتا تھا‘ اوپر درجنوں عیسائی‘ یہودی اور مسلمان موجود تھے۔یہ تینوں اکٹھے مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے‘ صبح صادق سے ذرا قبل ہمارے ایک ساتھی نے طور پر اذان دینا شروع کر دی‘ پوری وادی اللہ اکبر‘ اللہ اکبر سے گونج اٹھی‘ عیسائی اور یہودی بھی احترام سے اذان سنتے رہے‘ ہم خیالوں نے باری باری حضرت موسیٰ ؑ کے حجرے میں فجر کی نماز پڑھی اور مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے اور پھر قبولیت کا وقت آ گیا‘ افق سرخ ہوا اور وہ لمحہ زمین پر اترنے لگا جب طور سرخ ہو جاتا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ ہاتھ فضا میں اٹھا کر اپنے رب سے مخاطب ہوتے تھے‘ ہم خیالوں نے بھی ہاتھ اٹھائے اور اپنے رب کی بار گاہ میں کھڑے ہو گئے اور آخری بات ہمارے ایک دوست سمیع اللہ خان اس بار پاکستان کا جھنڈا لے کر آئے تھے‘ ہمارے ساتھیوں نے کوہ طور پر پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا‘یہ طور پر پاکستان کا پہلا جھنڈا تھا اور یہ پوری ویلی کو سلام کر رہا تھا۔(ش س م)