Monday November 25, 2024

سلیم صافی کو سخت نقصان کا سامنا۔۔!! غصے میں آکر سوشل میڈیا پر پیغام جاری کر دیا ، سب کا اصل چہرہ دکھا دیا

لاہور ( نیوز ڈیسک) آج سلیم صافی کا روززنامہ جنگ میں کالم چھپا، لیکن بقول سینئر صحافی کے انکا یہ کالم مکمل نہیں چھپ سکا کیونکہ میڈیا کو حکومت پابندیوں کا سامنا ہے، اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ’’جنگ میں شائع ہونے والا میرا آج کا آدھاکالم جوبدترین سینسرشپ کی وجہ سے

بمشکل آدھا شائع ہوا ہے۔ میڈیا میں جھوٹ بھی بولا جاتا ہے لیکن جھوٹ کے بڑھ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میڈیا پرپورا سچ بولنے یا لکھنے کی ممانعت ہے۔یہ سینسرشپ مولانا کے “تنہا کھڑے مخلص شخص” نے نافذ کی ہے‘‘۔ باقی سلیم صافی اپنے کالم میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ہم افراط و تفریط کے شکار عجیب لوگ ہیں۔ انسان کو انسان نہیں رہنے دیتے۔ جو دل کو بھائے اُسے فرشتہ بنا لیتے ہیں اور جو برا لگے اسے شیطان باور کرانے لگ جاتے ہیں، حالانکہ غلطیوں سے پاک صرف انبیائے کرام ہیں۔ ایک انسان عظیم اور ولی ﷲ ہوکر بھی غلطی کا ارتکاب کر سکتا ہے اور دوسرا گنہگار ہوکر بھی کوئی بڑا نیک کام کر سکتا ہے۔افسوس کہ مولانا طارق جمیل صاحب اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں بھی ہم نے یہی افراط و تفریط کا رویہ اپنا لیا۔ میڈیا جیسا بھی ہے لیکن میرے رزق کا وسیلہ اور عزت کا ذریعہ ہے یوں دوسروں کی طرح میں بھی اس کے بارے میں حساس ہوں تاہم اس کے باوجود میں اپنے آپ کو مولانا طارق جمیل اور ان جیسے دین کے دیگر خدمتگاروں کے خاکِ پا کے برابر بھی نہیں سمجھتا۔میں تو اپنے آپ کو دوسروں کی اصلاح کے قابل پاتا تھا اور نہ اصلاحِ معاشرہ کا کام کر سکتا تھا، اس لئے مزدوری کے لئے میڈیا کی طرف آیا جہاں اتفاقاً ﷲ کے فضل اور ماں کی دعائوں سے رزق کشادہ ہوا لیکن مولانا طارق جمیل کے پاس ایک پُرتعیش زندگی کا آپشن موجود تھا جسے رضائے الٰہی کی خاطر ترک

کرکے اُنہوں نے دعوتِ دین کے میدان کا انتخاب کیا۔مولانا ﷲ کے نیک بندے ہیں اور ہم گنہگار، یوں ان کے کسی فعل یا قول پر تنقید کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان سے افضل ہیں لیکن جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا کہ انبیا کے علاوہ کوئی خطا سے مبرا نہیں اور تنقید کا یہ مطلب نہیں کہ میں خاکمِ بدہن انہیں کوئی نیک اور برتر انسان نہیں سمجھتا۔میرے نزدیک مولانا کو میڈیا کے بارے میں سوئپنگ اسٹیٹمنٹ نہیں دینی چاہئے تھی لیکن اگر انہوں نے دی بھی تو اس پر ہم میڈیا والوں کو اس طرح آسمان سر پر نہیں اٹھانا چاہیئے تھا۔ میرے نزدیک مولانا کی اصل غلطی میڈیا پر تنقید نہیں بلکہ کچھ اور ہے اور میری اُن سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اس غلطی کو نہ دہرائیں۔ مولانا کی پہلی غلطی یہ تھی کہ وہ کورونا کے حوالے سے ہونے والی ایک قومی ٹرانسمیشن میں سیاست کو لے آئے۔جب مولانا یہ کہتے ہیں کہ تنہا عمران خان نیک ہیں اور ملک کی خاطر لڑ رہے ہیں تو اس سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ باقی سب سیاستدان اور بااثر لوگ خراب ہیں۔ اسی طرح مولانا کی یہ بات سراسر غلط ہے کہ انہیں اُجڑا ہوا چمن ملا ہے۔ یہ چمن سب سے زیادہ اُجڑی ہوئی حالت میں قائداعظم کو اور دوسرے نمبر پر ذوالفقار علی بھٹو کو ملا تھا لیکن تمام اشاریے بتارہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو جس حالت میں یہ چمن ملا، اسے انہوں نے ہر حوالے سے مزید اجاڑ دیا۔مولانا نے کسی اور کی ایسی وکالت نہیں کی جس طرح وہ موجودہ حکومت کی کرتے ہیں۔ مولانا کو یہ بات مدِنظر رکھنی چاہیے کہ صرف میاں نواز شریف اور آصف زرداری ہی نہیں بلکہ علما کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور سب سے منظم دینی جماعت کے

امیر سراج الحق بھی موجودہ حکومت کو ناجائز یعنی ڈی جیورو نہیں بلکہ ڈی فیکٹو حکومت سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ گنہگار مداح بھی ان لوگوں میں شامل ہے۔یقیناً میڈیا پر جھوٹ بہت بولا اور پھیلایا جاتا ہے لیکن مولانا کی یہ بات درست نہیں کہ میڈیا پر صرف جھوٹ ہی بولا جاتا ہے۔ یہاں کچھ لوگ سچ بھی بولتے ہیں اور اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ کیا مولانا نہیں جانتے کہ میڈیا میں جھوٹ بولنے کا رجحان مزید عروج پا گیا اور میڈیا کو جھوٹ بولنے کیلئے سب سے زیادہ موجودہ حکومت کے نااہل مشیروں نے مجبور کیا۔چن چن کر ایسے لوگوں کو لاکر اپنا ترجمان بنایا اور ٹی وی پر بٹھایا جاتاہے جو جھوٹ بولنے اور دوسروں کی عزتیں اُچھالنے کے ماہر ہوں لیکن مولانا نے اُن کے اِس عمل کی کبھی مذمت نہیں کی۔ میڈیا پر گالم گلوچ کا سلسلہ بڑھ گیا تو اس میں بھی سب سے زیادہ حصہ موجودہ حکومت کے نااہل مشیروں کا ہے۔ مولانا اگر ان سب پہلوئوں کی طرف توجہ دلاتے تو جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کا اعزاز حاصل کر لیتے۔نہ جانے مولانا کو علم نہیں یا جان بوجھ کر انہوں نے حکمران کے سامنے اس کا ذکر نہیں کیا کہ اس وقت میڈیا کا اصل المیہ جھوٹ نہیں بلکہ یہ حادثہ ہے کہ وہ پورا سچ نہیں بول سکتا اور اس سچ سے میڈیا کو موجودہ حکومت نے روکا ہے لیکن یہاں بھی سارا میڈیا ایک جیسا نہیں۔ سچ بولنے کی خاطر طلعت حسین، نصرت جاوید اور رئوف کلاسرا جیسے سینکڑوں میڈیا پرسنز نے اپنی نوکریاں قربان کردیں۔خود یہ

عاجز گزشتہ ایک سال کے دوران دو مرتبہ اپنا استعفیٰ مالکان کو پیش کر چکا ہے۔ تازہ ترین مثال میر شکیل الرحمٰن ہیں۔ غرض مولانا محترم صرف امربالمعروف پر اکتفا کرنے کے بجائے اگر کبھی میڈیا کے بعض جنونیوں کی طرح نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا کریں تو کسی کو انگلی اُٹھانے کی ہمت نہ ہوگی۔اب اگر امربالمعروف کے ساتھ انہوں نے نہی عن المنکر کو بھی اپنے مشن کا حصہ بنا لیا ہے تو اس کا رُخ میڈیا کے ساتھ ساتھ حکمرانِ وقت کی طرف بھی موڑ دیں کیونکہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق ہے، مصیبتوں کے شکار میڈیا کے سامنے نہیں۔مولانا کو یہ بات بھی مدِنظر رکھنی چاہیے کہ میڈیا صرف چند اینکرز اور مالکان کا نام نہیں۔ جس طرح جاوید چوہدری صاحب نے تفصیل لکھ کر بتا دیا ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ وہ کارکن صحافی بھی میڈیا کا حصہ ہیں جن کا ان گناہوں میں کوئی حصہ نہیں جن سے مولانا کو تکلیف ہوئی ہے لیکن ان کے ممدوح کے میڈیا کے ساتھ زیادتیوں کا سب سے زیادہ ملبہ ان بےچارے نوے فیصد لوگوں پر گرا ہے۔یقیناً پاکستانی میڈیا میں بہت غلطیاں ہیں اور ان کا ذکر ہم خود بھی کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا قصور وار ہے لیکن تنہا قصور وار نہیں۔میڈیا پر جھوٹ بولا جاتا ہے لیکن صرف جھوٹ نہیں بولا جاتا اور زیادہ تر جھوٹ موجودہ حکومت کے نااہل مشیر اس سے بلواتے ہیں ۔ میڈیا والے سچ بھی بولتے ہیں اور بعض اوقات وہ سچ بھی بولتے اور نتائج بھی بھگتتے ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔

FOLLOW US